ایس آئی ایف سی کے تعاون سے توانائی کے شعبے میں اہم پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان کے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایس آئی ایف سی کے تعاون سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) نے چکوال کے ضلع میں واقع راجیان-11 ہیوی آئل ویل میں تیل کی پیداوار کا آغاز کر دیا ہے، جو کہ ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
راجیان-11 ہیوی آئل ویل 2020 سے تعطل کا شکار تھا، تاہم ایس آئی ایف سی کے تعاون سے جدید مصنوعی لفٹ سسٹم کو متعارف کرایا گیا جس کی مدد سے اس ویلز کو دوبارہ فعال کیا گیا۔
اس جدید سسٹم کے ذریعے 3,774 میٹر گہرائی میں دبے ہوئے وسائل منظر عام پر لائے گئے، جسے او جی ڈی سی ایل کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
او جی ڈی سی ایل کی جانب سے نئے دریافت شدہ کنویں سے روزانہ 1,000 بیرل تیل کی پیداوار متوقع ہے، جس سے نہ صرف ہائیڈروکاربن پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ او جی ڈی سی ایل کی قیادت میں مزید استحکام آئے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: او جی ڈی سی ایل
پڑھیں:
ٹرمپ،جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات فوری طور پر دوبارہ شروع کرے گا تاکہ وہ دیگر جوہری طاقتوں کے ساتھ برابر کی بنیاد پر کھڑا رہ سکے۔ یہ اعلان انہوں نے جنوبی کوریا کے شہر بوسان سے اپنے ایشیائی دورے کے اختتام پر وطن واپسی سے قبل کیا۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ محکمہ دفاع کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ دیگر ممالک کی طرح فوری شروع کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکا کے پاس موجودہ وقت میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، لیکن چین اگلے پانچ سالوں میں امریکا کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ نئی آبدوز امریکا کے فلاڈیلفیا میں جنوبی کورین کمپنی Hanwha کے شپ یارڈ میں تیار کی جائے گی اور یہ زیادہ جدید، تیز اور پائیدار ہوگی۔ اس اقدام کے بعد جنوبی کوریا بھی ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو جوہری آبدوزوں کے مالک ہیں، جن میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور بھارت شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ کے فیصلے سے قبل جنوبی کوریا نے امریکا سے درخواست کی تھی کہ جوہری معاہدے میں نرمی کی جائے تاکہ یورینیم کی افزودگی اور ایندھن کی ری پروسیسنگ میں زیادہ خود مختاری حاصل کی جا سکے۔
اب تک امریکا نے ایٹمی دھماکوں کا آخری تجربہ 1992 میں کیا تھا۔ اس کے بعد 1996 میں جامع ایٹمی تجربہ بندی معاہدہ (CTBT) پر دستخط ہوئے، اور صرف چند ممالک بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے بعد میں جوہری دھماکے کیے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا کے پاس تقریباً 5,550 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 3,800 فعال ہیں، جبکہ روس کے پاس 5,459 اور چین کا ذخیرہ 600 کے قریب ہے اور 2030 تک 1,000 سے تجاوز کر سکتا ہے۔