Islam Times:
2025-11-05@01:07:37 GMT

ابوحمزہ کون تھا؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

ابوحمزہ کون تھا؟

اسلام ٹائمز: آخری پریس کانفرنس میں ابوحمزہ کے ان الفاظ کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے، جس میں وہ عربی میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں ’’لا باس ان وقع علینا الموت او وقعنا علی الموت‘‘ (موت سے ہم دوچار ہو یا ہم موت سے دوچار ہوں، کوئی حرج نہیں ہے، ہمیں کوئی خوف اور فکر نہیں)۔ تحریر: ضیاء چترالی

قسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کے بعد تحریک مزاحمت فلسطین کی سب سے مؤثر و توانا آواز ابو حمزہ بھی خاموش ہوگیا۔ ناجی ماہر ابو سیف، جو ابو حمزہ کے نام سے مشہور تھے، فلسطین میں اسلامی جہاد کی تحریک کے فوجی ونگ سرایا القدس کے ترجمان تھے۔ انہیں اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل اہم ترین فرد شمار کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ اسلامی جہاد کی جانب سے نفسیاتی اور میڈیا کی جنگ کا مرکزی حصہ رہے۔ ٹوئیٹر نے ابو حمزہ کا اکاؤنٹ کئی بار بند کیا۔ آخری بار 11 مئی 2021ء کو ان کا اکاؤنٹ بند کیا گیا تھا، جب سیف القدس معرکے کے بعد جنگ بندی ہوئی تھی۔ وہ غزہ میں بہت خفیہ طریقے سے رہتے تھے۔ ان کا ظاہر ہونا کسی مخصوص جگہ یا وقت پر نہیں ہوتا تھا، وہ کبھی پریس کانفرنسز میں نظر آتے، کبھی غزہ کی مساجد میں، یا نیوز ایجنسیوں میں، کبھی سڑکوں پر، یا کسی دوسرے ٹی وی چینل پر بھی آتے تھے۔ ابو حمزہ نے بار بار پریس کانفرنسوں اور فوجی بیانات میں شرکت کی، جہاں وہ سرایا القدس کے پیغامات اور اس کے موقف کو فلسطینی اور دنیا بھر کے عوام تک پہنچاتے تھے۔

حالیہ اسرائیلی جارحیت کے پہلے ہی روز صحافتی رپورٹس میں ابو حمزہ کی شہادت کی خبر دی گئی۔ فلسطینی میڈیا نے بتایا کہ اسرائیل نے انہیں ان کی بیوی شیماء ابو سیف، بھائی غسان مہیر ابو سیف اور ان کی بیوی سارہ ابو سیف، ان کے بیٹے سیف غسان مہیر ابو سیف اور دیما مہیر ابو سیف کے ساتھ شہید کیا۔ پھر سرایا القدس، جو تحریک جہاد اسلامی کا فوجی ونگ ہے نے بھی 17 مارچ 2025ء بمطابق 17 رمضان 1446 ہجری کو اپنے ترجمان ابو حمزہ کی شہادت کا اعلان کیا۔ ابو حمزہ کی شہادت کی مکمل تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں، لیکن ان کی شہادت فلسطینی مزاحمتی تحریک کے لیے ایک بڑا نقصان سمجھا جا رہا ہے۔ ابو حمزہ کی ذاتی زندگی کی تفصیلات زیادہ تر حفاظتی وجوہات کی بناء پر مخفی رکھی گئیں، یہاں تک کہ کل پہلی بار فلسطینی میڈیا نے ان کا اصلی نام “ناجی مہیر ابو سیف” ظاہر کیا۔ ابو حمزہ 2014ء سے سرایا القدس کے فوجی ترجمان تھے۔ ابوعبیدہ کے بعد ان کی آواز سب سے زیادہ سنی جاتی تھی۔ انہوں نے معرکہ طوفان الاقصیٰ سے صرف ایک ہفتہ قبل شادی کی تھی۔ دلہا بننے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں۔

اہم پریس کانفرنسز:
مئی 2021 میں، ابو حمزہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ماری راکٹ مہم میں شعاع کا راکٹ الخضیرہ اور تل ابیب تک پہنچ گیا‘‘۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جدید اور ترقی یافتہ راکٹوں کو فوجی خدمت میں شامل کیا گیا ہے، جیسے ’’القاسم‘‘ راکٹ۔ جون 2021ء میں ابو حمزہ نے ’’سیف القدس‘‘ آپریشن کے بعد اہم بیانات دیئے اور کہا کہ سرايا القدس اسرائیلی مقامات پر حملے جاری رکھے گی اور ’’فلسطینی مزاحمت کسی بھی دباؤ یا دھمکی کے سامنے نہیں جھکے گی‘‘۔ 7 اکتوبر 2023ء کو ابو حمزہ نے کہا ’’آج ہم نے انتقام اور فخر کی جنگ شروع کی ہے، ہم دشمن صہیونی کے ساتھ ایک مکمل جنگ میں ہیں اور یہ صرف آغاز ہے۔‘‘ جولائی 2024ء میں ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے دوران ابو حمزہ نے انکشاف کیا کہ کئی اسرائیلی قیدیوں نے حکومت کی طرف سے نظر انداز ہونے کی وجہ سے خودکشی کی کوشش کی تھی اور کہا کہ قابض افواج قیدیوں کے ساتھ تشدد کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابوحمزہ کی یہ پریس کانفرنس عالمی میڈیا میں ایک بڑی خبر بن گئی۔

آخری الفاظ:
آخری پریس کانفرنس میں ان کے ان الفاظ کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے، جس میں وہ عربی میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں:
لا باس ان وقع علینا الموت او وقعنا علی الموت۔
(موت سے ہم دوچار ہو یا ہم موت سے دوچار ہوں، کوئی حرج نہیں ہے، ہمیں کوئی خوف اور فکر نہیں)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پریس کانفرنس مہیر ابو سیف سرایا القدس ابو حمزہ کی کی شہادت موت سے کے بعد

پڑھیں:

خود کو بدلنا ہوگا

پاک فوج وطن کے تحفظ اور بقاء کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہی ہے اور وطن کے دفاع کے لیے پوری طرح پرعزم ہے، کسی بھی بیرونی جارحیت اور اندرون ملک دہشت گردی کا سخت جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جتنی طویل جنگ لڑی ہے دنیا کی کسی اور فوج نے نہیں لڑی۔ یہ جنگ آج بھی جاری و ساری ہے۔

پاکستان کے دشمنوں نے اندرونی طور پر ملک کو تقسیم کرنے کے لیے ففتھ جنریشن وار بھی شروع کر رکھی ہے۔ دشمن عناصر ہمارے بچوں کے ذہنوں کو گمراہ کرنے کی جو کوشش کر رہے ہیں کہ اس لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو درست اور مصدقہ معلومات فراہم کی جائیں تاکہ ان کی غلط فہمی دور ہو سکے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے اپنی حکومت کی آئینی برطرفی کے بعد اداروں کے خلاف مسلسل گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ان کی سوشل میڈیا ٹیم اور بعض پی ٹی آئی رہنما دن رات نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں مگر کہیں سے بھی حقائق نوجوانوں کو نہیں بتائے جا رہے۔

حکومتوں نے تو نئی نسل میں اپنا اعتماد کھو دیا ہے‘کسی بھی حکومت نے نوجوانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے کام نہیں کیا لیکن اب اس پر کام ہو رہا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ حکومت کی طرف سے اگر سچ بھی بتایا جائے تو نوجوان طبقہ یقین نہیں کرتا۔  پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بریگیڈ اور رہنما مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ افغانستان ہمارا دوست ملک ہے ‘دہشت گردی اس لیے ہو رہی ہے کہ اس میں ہمارا اپنا قصور ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈے کا شکار ہے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کون کر رہا ہے ؟ اس کے غلط پروپیگنڈے سے متاثر نئی نسل کو حقائق کا پتا نہیں جب کہ یہ زیادہ پرانی نہیں بلکہ 2018 کے بعد کی بات ہے جب کہ جب بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بنے تو وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور پاک فوج ایک صفحے پر ہیں اور فوج پر تنقید کرنے والے ملک دشمن ہیں اور اس فوج کا سربراہ قوم کا باپ ہے جس پر الزام تراشی کرنے والے ملک اور فوج سے دشمنی کر رہے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ 2018 میں پی ٹی آئی کو کون اقتدار میں لایا تھا۔پی ٹی آئی دور میں  اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور عسکری معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی تھی۔اس وجہ سے ملک میں کئی بحران پیدا ہوئے۔اپوزیشن کے خلاف نیب کو استعمال کیا گیا۔دہشت گردوں کو ملک میں لا کر بسایا گیا اور انھیں باقاعدہ طور پر مراعات دی گئیں۔یہ سب کچھ زیادہ دور کی بات نہیں۔

 اپنی آئینی برطرفی کے بعد سابق وزیر اعظم نے جنرل باجوہ کو دوبارہ اقتدار دلانے کے لیے کئی پیشکشیں بھی کی تھیں ۔ جس کا پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کو پتا ہے مگر کے پی کے نئے وزیر اعلیٰ عشق عمران میں اب فوج پر تنقید کر رہے ہیں۔

حال ہی میں سینیٹر منتخب ہونے والے پی ٹی آئی رہنما کو منتخب ہوتے ہی اداروں میں خامیاں نظر آگئیں اور انھوں نے فوج سے بیرکوں میں واپس جانے، سیاست سے دور رہنے کا بیان جاری کر دیا۔ یہ بیان انھیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو 2018 میں کیوں یاد نہیں آیا تھا جو اب یاد آ رہا ہے اور وہ اپنی سیاست کے لیے اب بے سروپا مطالبے کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اس کے نئے حلیف محمود اچکزئی کے ساتھ اب مولانا فضل الرحمن بھی بانی پی ٹی آئی کی زبان بول رہے ہیں اور ان کی پرانی باتیں دہرانے میں مصروف ہیں۔ مولانا کو بھی سوچنا چاہیے کہ اب جے یو آئی کے لیے بھی پہلے جیسے حالات نہیں رہے ۔ان کا تاثر ایک اچھے سلجھے ہوئے سیاستدان کا ہے۔

انھیں اپنا یہ تشخص برقرار رکھنا چاہیے۔ خیبرپختونخوا کے جو حالات ہیں ‘ان کو سدھارنے میں وفاقی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ پی ٹی آئی کا ۔جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو افغانستان ایک الگ ملک ہے۔خیبرپختونخوا کے لیڈروں کا یہ موقف کہ دونوں جانب ایک جیسے لوگ رہتے ہیں تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے ملک ایسے ہیں جن کی سرحدوں کے آر پار ایک ہی زبان بولنے والے یا ایک ہی نسلی گروہ رہتے ہیں لیکن وہ اپنی اپنی ملکوں کی سرحدوں کا احترام کرتے ہیں۔سعودی عرب میں رہنے والے اور قطر میں رہنے والے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں‘لیکن ایسا نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان سرحدی تشخص نہ ہو ۔اسی طرح ایران کے صوبہ آذربائیجان اور آزاد ملک آذربائیجان کے باشندے ایک ہی قوم ‘مذہب اور زبان بولتے ہیں۔لیکن ان کی سرحدیں اپنی اپنی ہیں۔اس لیے پاکستان میں وہ سیاستدان جو پاک افغان سرحد کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں‘ پاکستانی شہری ہونے کے ناتے انھیں ایسی باتیں کرنا کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

ڈی آئی خان جے یو آئی کا وہ حلقہ ہے جہاں سے مولانا کو چار بار شکست ہو چکی ہے اور اب بھی وہ محمود اچکزئی کے باعث پشین سے منتخب ہوئے اور علی امین گنڈاپور جیسا نیا چہرہ مولانا کو ان کے اپنے آبائی شہر ڈی آئی خان سے متعدد بار شکست دے چکا ہے جب کہ اس حلقے سے مولانا کے والد مولانا مفتی محمود نے بھٹو جیسے رہنما کو شکست دی تھی۔اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے کہ مولانا کو ہرانے کے لیے دھاندلی کرائی گئی ہے۔ لیکن بہر حال انھوں نے اس ہار کو تسلیم کیا ہے۔

پاکستان کو دنیا میں عزت مل رہی ہے۔اب اسٹیبلشمنٹ تبدیل ہو چکی ،اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے سیاستدان حقائق کے برعکس اپنی پرانی سیاست ہی میں مصروف ہیں۔ اب اس قسم کی طرز سیاست عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو چاہے وہ مذہبی قیادت ہو یا چاہے پاپولر سیاسی قیادت ہو ‘اسے نئے تقاضوں کے مطابق سیاست کرنی ہوگی۔ایسی سیاست جس میں پاکستان کے مفادات کو اولیت حاصل ہے

متعلقہ مضامین