اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) ایلون مسک کے سوشل نیٹ ورک پلیٹ فارم ایکس، جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، نے بھارتی حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ملک کی آئی ٹی وزارت نے آن لائن مواد کو آسانی سے ہٹانے کی اجازت دینے کے لیے اپنے سنسرشپ کے اختیارات میں غیر قانونی طور پر اضافہ کر لیا ہے۔

یہ مقدمہ پانچ مارچ کو عدالت میں دائر کیا گیا تھا، تاہم جمعرات کے روز ہی یہ معاملہ میڈیا کے ذریعے سامنے آیا۔ سوشل نیٹ ورک نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے دیگر سرکاری محکموں سے کہا ہے کہ وہ مواد کو بلاک کرنے کے احکامات جاری کرنے کے لیے ایک سرکاری ویب سائٹ استعمال کریں۔

(جاری ہے)

مسک کے ایکس نے بھارتی حکومت پر مقدمہ کیوں کیا؟

ایکس نے دلیل دی کہ گزشتہ سال بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے شروع کی گئی ویب سائٹ سخت بھارتی قانونی تحفظات سے مشروط نہیں تھی، جو پہلے صرف اعلیٰ حکام کے ذریعے مواد ہٹانے کے احکامات جاری کرنے کی اجازت دیتی تھی۔

اور صرف عوامی نظم یا ریاست کی خودمختاری کو خطرہ سمجھے جانے والے معاملات میں ہی ایسا کرنے کی بات کہی گئی تھی۔

سوشل نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ تاہم اب یہ ویب سائٹ "ایک ناقابل اجازت متوازی میکانزم" کے تحت کام کر رہی ہے، جو "بھارت میں معلومات پر بے لگام سنسرشپ" کا سبب بن رہی ہے۔

بھارتی حکومت نے ابھی تک اس کیس کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ میں اس ہفتے کے اوائل میں اس کیس کی مختصر سماعت ہوئی، لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اب اس کی سماعت 27 مارچ کو ہو نے والی ہے۔

بھارت میں اسٹار لنک اور ٹیسلا کو پھیلانے کی خواہش

یہ مقدمہ ایکس اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے درمیان جاری اس قانونی تنازعے میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے کہ آیا ملک آن لائن مواد کو کس طرح منظم کرنا چاہتا ہے۔

یہ تنازعہ ایک ایسے وقت ہوا ہے، جب ایلون مسک بھارت میں اسٹار لنک اور ٹیسلا کو لانچ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

مسک نے بھارت کے دو سب سے بڑے ٹیلی کمیونیکیشن فراہم کنندگان کمپنیاں جیو اور بھارتی ایئر ٹیل کے ساتھ ملک بھر میں براڈ بینڈ کا کردار ادا کرنے کے لیے معاہدے کیے ہیں، تاہم کمپنی کو ابھی بھی حکومت کی جانب سے اجازت درکار ہے۔

یہ تنازعہ ایسے وقت بھی سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بھارتی ساز و سامان پر اضافی محصولات کی دھمکی دے رکھی ہے۔ واضح رہے کہ ایلون مسک ٹرمپ کے ایک سینیئر مشیر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ٹرمپ نے حال ہی میں ایک امریکی میڈیا ادارے بریٹ بارٹ نیوز نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ وہ (بھارت) شاید ان ٹیرف کو کافی حد تک کم کرنے جا رہے ہیں۔

لیکن دو اپریل سے، ہم ان سے وہی ٹیرف وصول کریں گے جو وہ ہم سے وصول کرتے ہیں۔"

ٹرمپ نے بھارت کو "دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف لگانے والے ممالک میں سے ایک" قرار دیا ہے۔

سن 2021 میں ایکس، جو اس وقت ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، نے کسانوں کے احتجاج سے متعلق بعض پوسٹس کو بلاک کرنے کے قانونی احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد بھارتی حکومت کے اہلکاروں نے ٹویٹر کے دفتر پر چھاپا مارا تھا۔

تدوین: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارتی حکومت حکومت کے نے بھارت کرنے کے نیٹ ورک

پڑھیں:

بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اعجاز ملاح کو بھارتی خفیہ ادارے نے پکڑ کر پاکستان میں جاسوسی کے اہداف دیے۔

وفاقی وزرا کے مطابق اعجاز ملاح کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کرکے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی وردیاں اپنے بھارتی ہینڈلر کے سپرد کرنے والا تھا اور اِس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی، جن میں سب سے اہم زونگ کمپنی کے سم کارڈ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور میں رسوائی کے بعد بھارت کی ایک اور سازش ناکام، جاسوسی کرنے والا ملاح گرفتار، اعتراف جرم کرلیا

وفاقی وزیر کے مطابق یہ اشیا حوالے کرنے کا مقصد پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ملوث کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کرنسی نوٹ، پاکستان کے سیگریٹ اور پاکستانی کی ماچسیں بھی حوالے کی جانی تھیں۔

اس ساری واردات کا مقصد بظاہر اِتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ماضی میں بھارت نے مختلف واقعات میں پاکستان کی دراندازی ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا سہارا لیا۔

بھارتی حکومت کسی کو پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کبھی تو یہ کہتی ہے کہ فلاں سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی، فلاں سے پاکستانی چاکلیٹ ریپر، پاکستانی بسکٹ یا پاکستانی سیگریٹ برآمد ہوئے۔ یہ بھارتی حکومت کی پرانی حکمتِ عملی ہے اور خاص کر ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جہاں فوجی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا ملک دشمنی سمجھا جاتا ہو، ایسی چیزوں کو قبولیتِ عام ملتی ہے۔

بھارت نے پاکستانی مصنوعات کی بنیاد پر کب کب پاکستانی پر دراندازی کے الزامات لگائے؟

بھارت یہ طریقہ واردات 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی استعمال کر چکا ہے جب یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستانی اہلکار بھارتی علاقے میں گھس کر جاسوسی کر رہے تھے اور ثبوت کے طور پر اکثر پاکستانی سیگریٹس، مصالحے، بسکٹ اور چائے کے پیکٹس دکھائے جاتے تھے۔

1999 کی کارگل جنگ میں بھارتی میڈیا نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیاکہ پاکستانی فوجی بھارتی علاقوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہی پاکستانی بسکٹ، چائے کے ریپر اور اردو میں لکھے ہوئے ادویات کے لیبل پیش کیے گئے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے بعد میں تسلیم بھی کیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور کمزور شواہد تھے۔

2008 میں بھارتی فوج کی پریس کانفرنسوں میں کئی بار پاکستانی بسکٹ، کڑک چائے کے ریپر یا سگریٹ پیک دکھائے گئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں دراندازی کے لیے لوگ پاکستان سے آئے تھے۔

2013 میں دہلی پولیس نے ایک نوجوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جس کے پاس سے پاکستانی 100 روپے کا نوٹ اور راولپنڈی کی بنی ہوئی چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد میں پتا چلا گرفتار شدہ نوجوان ذہنی مریض تھا۔

2016 اڑی حملہ میں بھارتی حکومت نے دعوٰی کیاکہ مارے گئے حملہ آوروں کی پاس سے پاکستانی چاکلیٹس اور بسکٹ برآمد ہوئے ہیں، اس بات کو خود بھارتی میڈیا نے بعد میں مزاحیہ الزام قرار دیا۔

2017 میں بھارت نے دعوٰی کیاکہ پاکستان کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اور ثبوت کے طور پر پان پراڈکٹس اور چاکلیٹ ریپر پیش کیے گئے۔

2019 پلوامہ واقعے میں پاکستانی دراندازی شامل کرنے لیے پاکستانی بسکٹ اور چائے کے خالی پیکٹ ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے۔

2021 میں بھارتی حکومت نے ایک مقامی چراوہے کو اِس بنیاد پر جاسوس قرار دے دیا کہ اس کے پاس پاکستانی بسکٹ اور اوڑھنے والی چادر تھی، بعد میں وہ شخص بھارتی شہری ہی نکلا۔

21 اگست 2022 کو بھارتی فوج نے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش ناکام بنائی ہے اور مبینہ طور پر گرفتار پاکستانی عسکریت پسند سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ بھارتی فوج نے اسے پاکستان کی حمایت سے دراندازی کا ثبوت قرار دیا۔

22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی فورسز نے 28 جولائی 2025 کو آپریشن مہادیو میں 3 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔

بھارتی حکومت کے مطابق ان دہشتگردوں سے مبینہ طور پر پاکستان کی بنی ہوئی چاکلیٹس کی ریپنگز برآمد ہوئیں جو کراچی میں کینڈی لینڈ اور چاکو میکس کی بنی ہوئی تھیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ یہ ثبوت پاکستان سے دراندازی کا اشارہ دیتے ہیں، اور دہشتگرد پاکستانی شہری تھے۔

جاسوسوں کی گرفتاری کی اب کئی خبریں سننے کو ملیں گی، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا نیٹ ورک اِس وقت بہت زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ یہ نیٹ ورک آج گلف ممالک، کینیڈا، امریکا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو ایک ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنی شناخت چھپا کر ایران میں کاروبار بنایا اور پاکستان میں جاسوسی کے لیے آتا جاتا رہا۔

بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ غریب مچھیروں کو پکڑ کر اُن کو بلیک میل کرکے اُن سے پاکستان کی جاسوسی کروانا بھارتی خفیہ اداروں کا پرانا وطیرہ ہے، اور موٹر لانچز ہی کے ذریعے سے زیادہ تر پیسوں کی غیر قانونی ترسیل، جیسا کہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستانی خفیہ ادارے بہت متحرک ہیں، اب اِس طرح کی بہت سی خبریں دیکھنے سننے کو ملیں گی۔ اس سے قبل کراچی، لاہور اور اِسلام آباد سے اِس طرح کے کئی جاسوس پکڑے جا چُکے ہیں۔

بھارت جامع مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک

ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک نے گزشتہ ماہ میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور ہمسایہ بھارت کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔

انہوں نے کہاکہ ان تنازعات میں کشمیر، انڈس واٹر ٹریٹی اور بھارتی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی شامل ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ قومی خودمختاری اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کرتی ہیں اور ہر چیلنج کے سامنے کھڑی ہے۔

بھارت نے ’را‘ کی فنڈنگ بڑھا کر دائرہ کار وسیع کردیا، دھیرج پرمیشا

برطانوی یونیورسٹی آف ہِل میں کریمنالوجی کے پروفیسر بھارتی نژاد دھیرج پرمیشا نے بھارتی اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کو فنڈنگ بڑھا کر اُس کے دائرہ کار میں اِضافہ کر دیا ہے جو اِس سے پہلے کانگریس کے دور میں نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟

’بھارت کے پاس اِس طرح سے وسیع نیٹ ورک 1980 کی دہائی میں تھا۔ خفیہ نیٹ ورک کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے اہداف بڑھ گئے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بھارتی جاسوسی پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت تعلقات خفیہ ادارے متحرک گرفتاریاں معرکہ حق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ کپ میں تاریخی کامیابی نے انڈینز کو ’1983 کی یاد دلا دی، مودی سمیت کرکٹ لیجنڈز کا خراجِ تحسین
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • بھارتی خفیہ ایجنسی نے اعجاز ملاح کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا: عطا تارڑ
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال