پارا چنار ائیرپورٹ کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں شروع
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
پاکستان ائیرپورٹس اتھارٹی اور پی آئی اے کی مشترکہ ٹیم نے پاراچنار ایئرپورٹ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران پاراچنار ایئرپورٹ پر تجارتی و امدادی پروازوں کی بحالی کے امکانات اور ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستان ائیرپورٹس اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق ‘جوائنٹ بورڈ آف آفیسرز’ نے ایئرپورٹ کے بنیادی ڈھانچے، تکنیکی پہلوؤں اور سہولیات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ جوائنٹ ٹیم نے ٹرمینل بلڈنگ، رن وے، فائر گیراجز، پی اے اے کی رہائش گاہ، جنریٹر روم، اور دیگر آپریشنل سہولیات کا جائزہ لیا۔ معائنے کے بعد ٹیم کے ارکان نے ڈپٹی کمشنر (DC) پاراچنار سے بھی ملاقات کی۔ ترجمان کے مطابق ملاقات میں پاراچنار ایئرپورٹ پر آپریشنز کی بحالی کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے وزارت دفاع کی ہدایت پر پی اے اے اور پی آئی اے ارکان پر مشتمل 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ پارا چنار ائیرپورٹ کا دورہ کرنے والی مشترکہ کمیٹی ائیرپورٹس اتھارٹی کے 6 اور پی آئی اے کے 2 ارکان پر مشتمل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاراچنار ایئرپورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاراچنار ایئرپورٹ
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمٰن کے غیر فعال مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے
مولانا فضل الرحمٰن—فائل فوٹوجمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے غیر فعال متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے متحدہ مجلسِ عمل کے رہنماؤں کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کر لیا۔
علامہ سید ساجد علی نقوی وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پہنچ گئے، علامہ عارف واحدی سمیت دیگر رہنما وفد میں شامل تھے۔
سر براہ جے یو آئی نے کہا کہ لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے علامہ ساجد نقوی سمیت ایم ایم اے کی سابقہ قیادت کو مدعو کیا تھا، یہ رابطے غیر فعال ایم ایم اے کو پھر سیاسی میدان میں اتارنے کی کاوشوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے سربراہ جمعیتِ اہلحدیث حافظ عبد الکریم اور مولانا اویس نورانی سے بھی ٹیلیفونک رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی طرف سے تاحال جماعتِ اسلامی کو مدعو نہیں کیا گیا، متحدہ مجلسِ عمل کی فعالیت، غیر فعالیت کے اسباب سمیت دیگر امور زیرِ غور آئیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں مجموعی سیاسی صورتِ حال سمیت غزہ اور خطےکی صورتِ حال بھی زیرِ غور آئے گی۔