ارتھ آور منایا گیا، اقدام کا مقصد آگاہی پیدا کرنا ہے: وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد+لاہور ( اپنے سٹاف رپورٹر سے+نیوز رپورٹر) زمین سے محبت کے اظہار کیلئے ’’آرتھ آور‘‘ منایا گیا۔ رات ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو بجے تک ایک گھنٹہ کیلئے اضافی لائٹس اور برقی آلات بند کر دیئے گئے۔ ارتھ آور منانے کا مقصد کرہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کیلئے شعور اجاگر کرنا ہے۔ پارلیمنٹ، ایوان صدر وزیراعظم ہاؤس سمیت اہم سرکاری عمارتوں کی لائٹس بند، صوبائی اسمبلیوں، مینار پاکستان، بادشاہی مسجد، واپڈا ہاؤس، شالیمار باغ، مزار قائد، پشاور میوزیم موہٹہ پیلس، او آئی سی سی عمارت کی لائٹس ایک گھنٹہ بند کر دی گئیں۔ شہباز شریف نے پاکستانیوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ یہ اقدام کر کے اس علامتی اقدام میں حصہ لیں تاکہ اس عمل کی ترغیب دی جا سکے۔ آگاہی پیدا کی جا سکے اور افراد، کاروباری اداروں اور برادریوں کو پائیدار طریقوں کو اپنانے کے لئے بااختیار بنایا جا سکے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
سعودی عرب اور یو ای اے کا پیسہ کیسے بحران پیدا کر رہا ہے؟!
اسلام ٹائمز: خلیج فارس کے عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دہائیوں کے دوران عرب ممالک کو اربوں درہم، ریال و ڈالر امداد دی ہے۔ لیکن اس امداد کا زیادہ تر حصہ، حقیقی ترقی و عوام کے حالات بہتر بنانے کی بجائے، سیاسی، جماعتی، قبائلی اور سماجی شخصیات کی ذاتی وفاداریاں خریدنے یا ایک فریق کی دوسرے کے خلاف عسکری حمایت پر صرف کیا گیا۔ جیسا کہ آج ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں۔ تحریر: فتانہ غلامی
گزشتہ دہائیوں میں، خلیج فارس کے عرب ممالک نے دیگر عرب ممالک کو اربوں ڈالر امداد فراہم کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ امداد ان ممالک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا مُحرک بنتی، مگر ان وسائل کا بڑا حصہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی بجائے سیاسی وفاداریوں اور فوجی حمایت خریدنے پر صرف کیا گیا۔ خطے میں خلیجی ممالک کے پیسے کے اس تخریب کارانہ مصرف سے یمن، سوڈان، لیبیاء اور دیگر بحران زدہ معاشروں پر پڑنے والے اثرات تشویش ناک ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ خلیج فارس کے عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دہائیوں کے دوران عرب ممالک کو اربوں درہم، ریال و ڈالر امداد دی۔ لیکن اس امداد کا زیادہ تر حصہ، حقیقی ترقی و عوام کے حالات بہتر بنانے کی بجائے، سیاسی، جماعتی، قبائلی اور سماجی شخصیات کی ذاتی وفاداریاں خریدنے یا ایک فریق کی دوسرے کے خلاف عسکری حمایت پر صرف کیا گیا۔ جیسا کہ آج ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں، جہاں سعودی عرب، جنرل برہان کی حمایت کر رہا ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات، حکومت مخالف باغی کمانڈر حمیدتی کی۔
یہ حمایت معاشی یا ترقیاتی نہیں بلکہ محض عسکری ہے۔ ایسے ملک میں جو قحط، غربت اور محرومیوں سے نبرد آزما ہے۔ وہاں ایسی حمایت کا نتیجہ تباہی، قتل، بیماری اور نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ لیبیاء میں بھی یہی طرز عمل اپنایا گیا۔ امداد کے نام پر عسکری اہداف کی تکمیل کا عمل، نہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بلکہ قطر کی جانب سے بھی بالکل اسی راہ و روش کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ ثروت مند لیبیاء میں اس پالیسی کا نتیجہ سوڈان اور یمن کے سانحے سے کسی طور کم نہیں۔ اسی طرح کی مثالیں ہم نے صومالیہ سے لے کر شام، لبنان اور حتیٰ کہ مصر میں بھی دیکھیں۔ خاص طور پر بہار عرب کے بعد جب حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹایا گیا، قبل ازیں کہ مصر اس بحران سے نکل پاتا، ہم نے دیکھا کہ کیسے خلیجی ممالک کے پیسے، خصوصاً قطر نے تباہ کن کردار ادا کیا۔ یمن میں ان ممالک کے پیسوں کے تخریب کارانہ نتائج صاف واضح ہیں۔ وفاداریاں خریدنے اور دیگر منصوبوں کی خاطر، سعودی عرب 1960ء کی دہائی سے لے کر اب تک اربوں ڈالر یمن میں لگا چکا ہے۔
1990ء میں یمن میں داخلی اتحاد سے قبل، شمالی یمن میں ان رقوم کا محض ایک قلیل حصہ ہی حکومت کے خزانے، تعلیم، صحت، سڑکوں، بجلی اور پانی جیسے شعبوں کی ترقی پر خرچ ہوا، جبکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ حکومت، قبائل، فوج یا مذہبی گروہوں میں بااثر شخصیات کی جیبوں میں گیا تاکہ ریاض کے لئے ان کی وفاداری یقینی بنائی جا سکے۔ ان پیسوں کا ایک حصہ سابقہ جنوبی یمن کی حکومت کے خلاف جنگ پر بھی صرف کیا گیا۔ یمن کے داخلی اتحاد کے بعد یہ امداد جاری رہی، البتہ عوام کے لئے غیر محسوس نتائج کے بغیر۔ اگر سعودی عرب ان وسائل کو عوام کے حالات بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا تو آج اس کے پاس عوامی اطمینان و حمایت ہوتی اور اسے داخلی خطرات کا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن افسوس وہی پرانے ناکارآمد طریقے جاری ہیں یعنی لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کے بجائے ذاتی وفاداریاں خریدنا۔ ہم اپنے خلیجی بھائیوں کو خیرخواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ان رقوم کے خرچ اور تقسیم کے طریقہ کار پر نظر ثانی کریں، خواہ وہ یمن کے لئے ہو یا دیگر ممالک کے لئے۔ یہ وسائل، جو آنے والی نسلوں کے لئے ہیں، فرسودہ وفاداریوں کو مضبوط کرنے کی بجائے داخلی ترقی پر صرف ہونے چاہئیں۔
اگر ان ممالک کے شہریوں کو یہ احساس ہو جائے کہ عرب ممالک کی امداد ان کے فائدے میں ہے، ان کی زندگیوں کو بہتر بناتی ہے، ان کے وقار کی حفاظت کرتی ہے اور ان کے معاشروں کو تفرقہ و عسکریت پسندی سے دور رکھتی ہے، تو یمن سے لے کر دیگر علاقوں تک کے یہی عرب عوام، خلیجی ممالک کے حقیقی پشت و پناہ بن جائیں گے۔ اس صورت میں، خلیجی ممالک نہ صرف شخصیات کی وفاداری، بلکہ قوموں کا احترام اور حمایت حاصل کریں گے۔ بجائے اس کے کہ وہ اُن شخصیات پر انحصار کریں جن کے پاس خیالی دشمنوں سے ڈرانے کے علاوہ کوئی فن نہیں۔