جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا اسرائیل سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
برلن/بیروت: جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، "اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حملوں کی بحالی عوام کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ ہم شہری ہلاکتوں پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور فوری جنگ بندی پر زور دیتے ہیں۔"
اسرائیل نے 19 جنوری 2025 کو جنگ بندی کے بعد ایک بار پھر غزہ پر حملے شروع کر دیے ہیں، جس پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے سخت ردعمل دیا ہے۔ ان ممالک نے زور دیا کہ تمام فریقین مذاکرات کے ذریعے مستقل جنگ بندی کی کوشش کریں۔
وزراء نے یہ بھی کہا کہ حماس کو یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے اور یہ تنظیم "غزہ پر حکمرانی نہ کرے اور نہ ہی اسرائیل کے لیے خطرہ بنے"۔
لبنان کے جنوبی علاقے طولین میں اسرائیلی فضائی حملے میں ایک معصوم بچی سمیت دو افراد جاں بحق ہو گئے۔
یہ حملے اس وقت کیے گئے جب لبنان سے چھ راکٹ فائر کیے گئے، جن میں سے تین اسرائیل نے ناکام بنا دیے۔
اسرائیلی فوج نے حملے کا الزام حزب اللہ پر عائد کیا، لیکن حزب اللہ نے کسی بھی راکٹ حملے میں ملوث ہونے سے انکار کر دیا۔ تنظیم نے اسرائیلی الزامات کو لبنان پر مزید حملوں کا بہانہ قرار دیا اور کہا کہ وہ لبنانی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔
خطے میں مسلسل بڑھتی کشیدگی کے باوجود، عالمی برادری صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل کی فضائی بمباری، عام شہریوں کی ہلاکتیں، اور غزہ کی تباہ حالی پر انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید ردعمل دے رہی ہیں، لیکن عملی اقدامات تاحال نظر نہیں آ رہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت شامی پناہ گزینوں کو محدود وقت کے لیے، جرمنی میں تحفظ کی حیثیت سے محرومی کے بغیر ہی، اپنے آبائی ملک واپس جانے کی اجازت دینا چاہتی ہے۔
جرمنی میں قانونی طور پر اگر مہاجرین اپنے آبائی ملک کا دورہ کرتے ہیں، تو ایسے پناہ گزین اپنی پناہ کے تحفظ کی حیثیت سے، محروم ہو سکتے ہیں۔
تاہم اب حکومت نے پناہ گزینی کی حیثیت ختم کیے بغیر انہیں اپنے وطن کا دورہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔گزشتہ دسمبر میں شام کے حکمران بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے برلن نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کیے ہیں اور دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا ہے۔
(جاری ہے)
جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ
جرمنی نے یہ تجویز کیوں پیش کی؟اس نئی تجویز کے تحت جرمنی میں پناہ گزینوں کی حیثیت رکھنے والے شامی باشندوں کو چار ہفتوں یا دو مختلف ہفتوں کے لیے اپنے ملک جانے کی اجازت ہو گی۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ اس تجویز کا مقصد شامیوں کو رضاکارانہ طور پر واپسی کا فیصلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔
اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا، "ایسا کرنے کے لیے شام کے لوگوں کو خود یہ دیکھنے کے قابل بنانا ہے، مثال کے طور پر، آیا (ان کے) گھر ابھی تک برقرار ہیں یا نہیں، آیا ان کے رشتہ دار ابھی تک زندہ ہیں یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
"کچھ شامی باشندوں کو جرمنی سے جانا پڑ سکتا ہے، وزیر داخلہ
ترجمان نے مزید کہا کہ اگر شام میں صورتحال مزید مستحکم ہوتی ہے تو اس طرح کے دورے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو اپنے ملک واپس جانے کے قابل بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔
البتہ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے دوروں کی صرف "کچھ سخت شرائط کے تحت" ہی اجازت دی جانی چاہیے، اگر یہ شام میں "مستقل واپسی کی تیاری" کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ جو لوگ اس استثنیٰ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے دوروں کو متعلقہ امیگریشن حکام کے پاس رجسٹر کرانا ہو گا۔ترکی سے وطن لوٹنے والے شامی پناہ گزینوں کی نئی جدوجہد
حکمران پارٹی نے تجویز مسترد کر دیجرمنی کی کرسچن سوشلسٹ یونین (سی ایسی یو) اور ریاست باویریا کی اس کی ہم خیال جماعت کے وزیر داخلہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
باویرین ریاست کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمن نے مجوزہ دوروں کو "حقائق تلاش کرنے والے دوروں کی آڑ میں چھٹیوں کے دورے" قرار دیا۔ ہرمن نے جرمنی اور شام کے درمیان "بے قابو سفر" کے خلاف دلیل دی۔ اس کے علاوہ انہوں نے "تنہا قومی کوششوں" کے بجائے یورپ کے اندر ایک مربوط حل کی تلاش کی حمایت کی ہے۔
جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے اب نقد رقم کے بجائے پیمنٹ کارڈ
دسمبر میں اسد کی معزولی کے اگلے ہی دن جرمن حکام نے کئی دیگر یورپی ممالک کے ساتھ شامی شہریوں کے لیے سیاسی پناہ کی کارروائی کو منجمد کر دیا تھا۔
دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے خانہ جنگی کے دوران اپنے وطن چھوڑ کر جرمنی پہنچے تھے، اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
ادارت: جاوید اختر