سشانت سنگھ راجپوت کی موت کا کیس 4 سال بعد بند
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے تقریباً ساڑھے 4 سال بعد بھارت کے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے کیس بند کردیا اور اداکارہ ریا چکرورتی کو کلین چٹ دے دی۔
سی بی آئی نے سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے معاملے میں تفتیش مکمل کر کے کیس کو بند کرنے کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ہے۔
رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کے بعد اب کیس کی اگلی سماعت 8 اپریل کو ممبئی کی باندرہ مجسٹریٹ کورٹ میں ہوگی، اگر عدالت اس رپورٹ کو قبول کر لیتی ہے تو سشانت سنگھ راجپوت کا کیس باقاعدہ طور پر بند کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق سی بی آئی کی تفتیش میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی نے سشانت سنگھ راجپوت کو خودکشی کے لیے مجبور کیا تھا۔
سی بی آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کسی کے خلاف جرم ثابت نہیں ہو سکا اور تمام نامزد افراد کو بری کردیا۔
سشانت سنگھ راجپوت کی لاش 14 جون 2020 کو ممبئی کے علاقے باندرہ میں ان کے اپارٹمنٹ میں لٹکی ہوئی ملی تھی، ان کی اچانک موت نے پورے بھارت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
سشانت کے والد نے بہار پولیس میں ایک مقدمہ درج کروایا تھا، جس میں ریا چکرورتی پر سنگین الزامات لگائے گئے تھے، جس میں ذہنی ہراسانی، غیر ضروری طور پر ادویات دینا، مالی استحصال اور خودکشی کے لیے اکسانا شامل تھا۔ بعدازاں یہ کیس سی بی آئی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
سی بی آئی نے اس کیس میں تفصیلی تحقیقات کرتے ہوئے فارنزک سائنس لیبارٹری (CFSL) سے مدد لی، اس دوران سشانت سنگھ راجپوت کے ذاتی سامان، بشمول لیپ ٹاپ، ہارڈ ڈرائیوز، کیمرا اور 2 موبائل فونز کا فارنزک معائنہ کیا گیا۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) کی فارنزک ٹیم بھی اپنی رپورٹ میں اس نتیجے پر پہنچی کہ سشانت کی موت قتل نہیں بلکہ خودکشی کا نتیجہ تھی۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی موت
پڑھیں:
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔
صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔