کوئنزلینڈ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 مارچ 2025ء)جب ہم پردیس میں آتے ہیں تو زندگی کی حقیقتیں نیا رنگ لے آتی ہیں۔ خاص طور پر جب ہم اپنے گھر والوں، ماؤں اور بہنوں سے دور ہو جاتے ہیں، تو اکثر اوقات ہمیں اپنے گھر کے پکے کھانے اور ان کی محبت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب دل کی گہرائی سے ایک احساس جنم لیتا ہے — ایک احساس کہ ہم اپنے پیاروں سے بہت دور ہیں۔

رمضان کا مہینہ خاص طور پر ہمارے دلوں میں یادیں بسا دیتا ہے۔ سحری اور افطار کی رونقیں، گھروں کی دھوپ، اور کچن کی خوشبو ہمیں اپنی ماؤں کی یاد دلاتی ہیں۔ اسی احساس کو مدنظر رکھتے ہوئے، کوئنزلینڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر، فیصل سید نے ایک منفرد قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنے گھر میں مختلف طلباء کو بلا کر ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا۔

(جاری ہے)

اس دعوت کی خاص بات یہ تھی کہ یہ صرف ایک افطار کا موقع نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا موقع تھا جہاں دوریاں مٹ گئیں، اور ہم سب ایک میز پر بیٹھ کر کھانے کا مزہ لے رہے تھے۔ جب طلباء ایک جگہ جمع ہوئے تو خوشیوں کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ رنگ برنگے لذیذ کھانوں کی خوشبو نے ہمیں اپنی جانب کھینچ لیا۔ بریانی، کباب، چکن تندوری، اور مختلف قسم کے سینڈوچز نے ہر ایک کا دل جیت لیا تھا۔

اس کے علاوہ، پھلوں کی چٹنی، دہی بھلے، اور مختلف مشروبات نے اس محفل کی رونق کو دوبالا کر دیا۔ ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹیں آفریں تھیں، اور دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی خوشی تھی۔ اس افطار پارٹی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ فیصل سید نے طلباء کو اس موقع پر یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، اور یہ تعلقات ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہم یہاں اکیلے نہیں ہیں، یہ ہمارا ایک خاندان ہے جو در حقیقت ایک دوسرے کے لئے ہے۔" ان کے الفاظ نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ ہم اپنے پیاروں کی یاد میں غمگین نہ ہوں، بلکہ ان خوشیوں کو بانٹیں۔ جب افطار کا وقت آیا، تو سب نے ساتھ مل کر دعائیں مانگیں اور کھانا شروع کیا۔ یہ صرف کھانا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک دوسرے کی محبت، وفا، اور خلوص کا سچا نذرانہ تھا۔

ہر لقمہ میں محبت چھپی ہوئی تھی، اور یہ احساس ہوا کہ دوری کی قید میں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ آخر میں، یہ افطار پارٹی نہ صرف ایک کھانے کا موقع تھی، بلکہ دوستی، بھائی چارے، اور تعلقات کا ایک حسین تجربہ تھا۔ سب کو یہ احساس ہوا کہ زندگی پھیکی نہیں، بلکہ قیمتی طور پر رنگین ہے — اگر ہم اسے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔ فیصل سید کی کوشش نے ہم سب کے دلوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی، اور یہ لمحے ہمیشہ کے لئے ہمارے دلوں میں بچھ جائیں گے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایک دوسرے کے ساتھ فیصل سید دلوں میں

پڑھیں:

ٹورنٹو آپریشن کی معطلی اور سول ایوی ایشن کا زبردست قدم

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ایک بار پھر بدانتظامی اور کمزور منصوبہ بندی کے باعث بحران کا شکار ہوگئی۔ قومی ایئرلائن نے 11 ستمبر تا 25 ستمبر 2025 اپنے ٹورنٹو آپریشنز معطل کر دیے۔ یہ قدم بظاہر ’مینٹیننس کی ضرورت‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی اور ریگولیٹری غفلت کی ایک اور مثال ہے۔

اندرونی سرکلر نے حقیقت آشکار کردی

پی آئی اے کے دوحہ سینٹرل کنٹرول کی جانب سے 11 ستمبر 2025 کو جاری سرکلر میں یہ وجوہات بیان کی گئیں: بوئنگ 777 (AP-BGY) کا لینڈنگ گیئر شپ سیٹ اپنی حد پوری کرچکا تھا اور فوری تبدیلی درکار تھی۔ بوئنگ 777 (AP-BGZ) بھی کراچی میں مینٹیننس کے تحت تھا۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (PCAA) نے مزید پروازوں کے لیے ویور دینے سے انکار کردیا، کیونکہ کسی بھی ریگولیٹر کے لیے حفاظتی پرزوں کی مدتِ استعمال پر سمجھوتہ ناممکن ہے۔

نتیجتاً 13 سے 27 ستمبر تک تقریباً تمام ٹورنٹو فلائٹس (PK797، PK784، PK783/790، PK789، PK782، PK781، PK798) منسوخ ہو گئیں۔ بہرحال یہ کوئی اچانک پیش آنے والا معاملہ نہیں تھا۔ لینڈنگ گیئر سائیکل کی آخری تاریخ پہلے سے معلوم تھی۔ دنیا بھر کی ایئرلائنز ایسے پرزوں کی تبدیلی برسوں پہلے پلان کرتی ہیں۔ لیکن پی آئی اے نے وقت پر پرزے منگوانے میں کوتاہی کی اور آخری لمحات میں سول ایوی ایشن سے رعایت مانگی، جو بجا طور پر مسترد کردی گئی۔

مزید یہ کہ پی آئی اے نے یورپ کے راستے پروازوں کی تجویز دی، لیکن یہاں بھی بدانتظامی غالب رہی: ای ٹی او پی ایس پروازیں (ETOPS) کبھی بھی یورپی ریگولیٹر ای اے ایس اے (EASA) کے TCO منظوری میں شامل ہی نہیں کی گئیں۔ اس لیے یورپی حکام ان پروازوں کا جائزہ بھی نہ لے سکے۔ ایوی ایشن کے ماہر افسر ملک کہتے ہیں: ’ایسا لگتا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو آخر کار کچھ سمجھ اور پاور مل گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اب سمجھ گئے ہیں کہ ہوا بازی کی حفاظت ان کا پہلا مقصد ہے۔‘

ایوی ایشن کے لیگل ایکسپرٹ محمد علی کے مطابق: ’ایسے واقعات صرف ایک ایئرلائن کو نہیں بلکہ پاکستان کی پوری فضائی صنعت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ بہانے نہیں بلکہ جواب دہی کی جائے۔‘ معاشی تجزیہ کار محمد معید الرحمان کا کہنا ہے: ’ٹورنٹو روٹ پی آئی اے کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس آپریشن کی معطلی نہ صرف مالی نقصان ہے بلکہ مارکیٹ شیئر بھی براہِ راست غیر ملکی ایئرلائنز کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ یہ قومی خزانے کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔‘

ایوی ایشن کے پائلٹ کپتان آفتاب کہتے ہیں: ’جہازوں کے لینڈنگ گیئر اور انجن جیسے پرزے آخری دن تک گنے جاتے ہیں۔ یہ کوئی اچانک مسئلہ نہیں ہوتا۔ پی آئی اے نے اگر وقت پر متبادل پرزے منگوائے ہوتے تو آج یہ بحران پیدا نہ ہوتا۔ یہ واضح طور پر انتظامی ناکامی ہے۔‘

ایوی ایشن صحافی طارق نے نشاندہی کی کہ: ’یورپی ریگولیٹرز کے ساتھ پی آئی اے کی ETOPS منظوری نہ ہونا دراصل ادارہ جاتی غفلت ہے۔ دنیا کی بڑی ایئرلائنز اپنے کاغذات، منظوریوں اور آپریشنل اجازت نامے ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رکھتی ہیں۔ پی آئی اے کی یہ کمزوری بین الاقوامی اداروں کے اعتماد کو مزید مجروح کرے گی۔‘

یہ معاملہ صرف موجودہ بحران تک محدود نہیں۔ ماضی میں بھی اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان نے بارہا پی آئی اے کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک ازخود نوٹس کے دوران ریمارکس دیے تھے: ’پی آئی اے عوام کے پیسوں سے چلنے والا ادارہ ہے، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔‘

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن نے اپنی رپورٹ میں کہا: ’پی آئی اے کے پاس فلیٹ مینجمنٹ کا کوئی طویل مدتی منصوبہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے منافع بخش روٹس بھی متاثر ہو رہے ہیں اور مارکیٹ غیر ملکی ایئرلائنز کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔‘

پارلیمانی کمیٹی برائے ایوی ایشن نے خبردار کیا تھا کہ اگر قومی ایئرلائن نے انتظامی اصلاحات نہ کیں تو یہ بحران پورے ایوی ایشن سیکٹر کو متاثر کرے گا

مسافروں اور مالی نقصان کی قیمت

ہزاروں مسافر، طلبہ، خاندان، مریض اور کاروباری حضرات، اچانک متاثر ہوئے۔ ان میں سے کئی کو غیر ملکی ایئرلائنز کے مہنگے ٹکٹس خریدنے پڑے۔ دوسری طرف پی آئی اے کو لاکھوں ڈالرز کے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، ساتھ ہی ساتھ ساکھ کو بھی شدید دھچکا لگا۔
اگر پی آئی اے کو مزید بدنامی سے بچنا ہے تو:

1. جہازوں کی مینٹیننس لمبے عرصے کے شیڈول کے مطابق ہونی چاہیے۔
2. ریگولیٹری تقاضوں کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ حفاظتی حدود پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔
3. آپریشنل منصوبہ بندی میں ای ٹی او پی ایس اور ٹی سی او منظوری لازمی شامل کی جائے تاکہ متبادل راستے میسر ہوں۔
4. جوابدہی اور شفافیت ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو پرزہ جات کی بروقت فراہمی اور منصوبہ بندی میں ناکام رہے۔
جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، ٹورنٹو آپریشن جیسی منسوخیاں بار بار یاد دلاتی رہیں گی کہ پی آئی اے کا اصل مسئلہ پرانے جہاز نہیں بلکہ پرانی بدانتظامی کی عادتیں ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا اور پشاور بار کا عدالتوں میں موبائل سروس کی بحالی تک ہڑتال کا اعلان
  • خیبرپختونخوا بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ کا اعلان
  • خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ نشست
  • کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان
  • ٹورنٹو آپریشن کی معطلی اور سول ایوی ایشن کا زبردست قدم
  • ایمان مزاری کی غیر حاضری، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کی استدعا مسترد
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • چاروں صوبوں کی فلور ملز کا وفاقی حکومت سے بڑا مطالبہ
  • گورنرخیبرپختونخوا کا پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ،تنظیم کے حوالے سے امور بارے تبادلہ خیال کیا