33ٹن گندم گل سڑ گئی، عوام غیر معیاری اور خراب آٹا کھانے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
گلگت (نیوز ڈیسک) محکمہ خوراک گلگت کے گودام میں موجود 32890 کلوگرام گندم گل سڑ گئی۔ محکمہ کے حکام نے ناقابل استعمال اور بوسیدہ گندم کو تلف کرنے کے لئے کمیٹی قائم کر دی۔ جبکہ گلگت میں عوام غیر معیاری اور خراب آٹا کھانے پر مجبور ہیں زرائع کے مطابق ڈائریکٹر فوڈ گلگت ریجن کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن نمبر ۔ نوٹیفکیشن نمبر CR-1(13)/DCS&T/2024-25 کے مطابق آر ایس ڈی گلگت میں پڑی 32890 کلو گرام گندم ناقابل استعمال اور بوسیدہ ہوچکی ہے۔ ناقابل استعمال اور بوسیدہ گندم کو تلف کرنے کے لئے محکمہ زراعت’محکمہ تحفظ ماحولیات’ کمشنر گلگت ریجن اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فوڈ پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ہے دوسری جانب گلگت اور گردونواح کے علاقوں میں گندم و آٹے کے حصول کے لئے عوام ترس رہے ہیں جبکہ محکمہ خوراک کے حکام کی غیر زمہ دارانہ اور غفلت کے باعث ہزاروں کلوگرام گندم محکمہ خوراک کے گوداموں میں پڑے پڑے خراب ہوگئی ہے۔ گلگت میں عوام کے لئے غیر معیاری آٹا فراہم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پیٹ درد کی بیماریاں عام ہیں عوامی و سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کو خراب کروانے کے قبیحہ فعل میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے
مزیدپڑھیں:کرینہ کپور بھی راہول گاندھی کو ڈیٹ کرنے کی خواہشمند؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لئے
پڑھیں:
کراچی میں ای چالان: جگہ جگہ گڑھے، سگنلز خراب، زیبرا کراسنگ اور سڑکوں سے لائنیں غائب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک کے نئے نظام (ٹریکس) کے نفاذ سے قبل ہی شہر کا بنیادی ٹریفک انفرا اسٹرکچر سنگین بحران کا شکار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور تباہ حالی کا شکار ہیں، جن کی تعمیر و مرمت کو چھوڑ کر ای چالان کا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف سڑکوں تک محدود نہیں بلکہ شہر کی 90 فیصد شاہراہوں پر پیدل چلنے والوں کے لیے زیبرا کراسنگ موجود نہیں اور نہ ہی موٹر سائیکل سواروں کے لیے کوئی مخصوص لائن متعین ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاہراہوں پر ٹریفک کو منظم کرنے والے بیشتر سگنلز بھی یا تو غائب ہیں، یا درست کام نہیں کرتے جب کہ بیشتر سگنلز میں ڈیجیٹل ٹائم کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔
اسی طرح ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ جب شہر کی کسی بھی شاہراہ پر گاڑیوں کی رفتار کی کوئی حد مقرر نہیں تو اوور اسپیڈنگ کے چالان کس بنیاد پر کیے جا رہے ہیں؟ اس کے علاوہ، شاہراہوں پر انجینئرنگ کے نقائص، پلوں کے جوائنٹس کے مسائل اور سیوریج کے پانی سے سڑکوں کی تباہی ٹریفک قوانین کی پاسداری کو عملی طور پر ناممکن بنا رہے ہیں۔
حکومتی اداروں بشمول کے ایم سی کی جانب سے سڑکوں کی مرمت کے دعوے کیے جا رہے ہیں تاہم مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔