امریکی امداد میں کمی: ایڈز سے مزید لاکھوں انسانی اموات کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مارچ 2025ء) یو این ایڈز کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے پیر کے روز کہا کہ امریکہ، جو اس پروگرام کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ تھا، کی طرف سے امداد میں اچانک تخفیف ''تباہ کن‘‘ ہو گی۔
ایچ آئی وی کا علاج: سائنس کے مشکل ترین اہداف میں سے ایک
انہوں نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا، ''آپ ان فوائد کو کھونے کی بات کر رہے ہیں، جو ہم نے گزشتہ 25 سالوں کی محنت سے حاصل کیے ہیں۔
یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔‘‘ ایڈز سے چھ ملین سے زیادہ اضافی امواتونی بیانیما نے کہا، ''اگر امریکی امداد بحال نہ کی گئی اور اس کی جگہ دوسری فنڈنگ نہ دی گئی، اورچونکہ ہم نے دوسری حکومتوں کی جانب سے اس خلا کو پر کرنے کے وعدوں کے بارے میں کچھ نہیں سنا، تو اگلے چار سالوں میں مزید 63 لاکھ انسان اس بیماری سے ہلاک ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)
‘‘ایڈز کے خاتمے کے لیے یہ سال فیصلہ کن ہو گا، اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ امدادی وسائل روکے جانے کا نتیجہ اس بیماری کے پھیلاؤ میں 2023 کے مقابلے میں 10 فیصد اضافے کی صورت میں نکلے گا جب اس سے 600,000 اموات ہوئی تھیں۔
بیانیما نے مزید کہا کہ ''اضافی طور پر 8.
یو این ایڈز کی سربراہ کا کہنا تھا کہ ایڈز کی وبا اس سطح پر واپس آسکتی ہے، جو 1990ء کی دہائی کے بعد سے نہیں دیکھی گئی۔
انہوں نے کہا، ''صرف ان ممالک میں نہیں جہاں اب یہ مرض مرتکز ہو گیا ہے، افریقہ کے کم آمدنی والے ممالک میں، بلکہ ان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں ہم مشرقی یورپ، لاطینی امریکہ میں کلیدی آبادی کہتے ہیں۔‘‘
بیانیما کا کہنا تھا، ''ہم اس بیماری میں ایک حقیقی اضافہ دیکھیں گے۔ ہم اسے واپس لوٹتے ہوئے دیکھیں گے، اور ہم لوگوں کو اسی طرح مرتے ہوئے دیکھیں گے جس طرح ہم نے انہیں 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں مرتے دیکھا تھا۔
‘‘ امریکہ سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی اتحادی ارب پتی ایلون مسک امریکہ کی طرف سے دی جانے والی دیگر ممالک اور اداروں کے لیے امداد سمیت وفاقی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کر رہے ہیں۔
ایڈز کے خلاف جنگ کے لیے فنڈنگ میں کمی کے فیصلے نے اندرون اور بیرون ملک مظاہروں کو جنم دیا ہے۔
بیانیما نے وائٹ ہاؤس سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سمجھ بوجھ سے کام لینے کی اپیل بھی کی۔
انہوں نے کہا، ''امریکہ کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی فنڈنگ کو کم کرنا چاہتا ہے، لیکن جان بچانے والی امداد کو اچانک ختم کر دینے سے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘‘
یو این ایڈز کی سربراہ نے کہا، ''ہم اس پر دوبارہ غور کرنے اور خدمات کی فوری بحالی، زندگی بچانے والی خدمات کی بحالی پر زور دیتے ہیں۔‘‘
ادارت: مقبول ملک
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بیانیما نے انہوں نے ایڈز کی نے کہا کے لیے
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین