UrduPoint:
2025-11-03@20:19:25 GMT

امریکہ: پاکستانی فوجی سربراہ کے خلاف پابندی کا بل کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

امریکہ: پاکستانی فوجی سربراہ کے خلاف پابندی کا بل کیا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) پاکستانی حکام پر پابندیوں کے لیے امریکی کانگریس میں بل پیر کے روز ایک ریپبلکن قانون ساز اور ایک ڈیموکریٹک رہنما نے مشترکہ طور پیش کیا تھا۔ اس بل کا عنوان: "پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ" ہے اور اس میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پیر کے روز یہ بل جنوبی کیرولائنا سے ریپبلکن کانگریس کے رکن جو ولسن اور کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ رکن جمی پنیٹا نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔ اب اس پر مزید غور و خوض کے لیے ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی کمیٹیوں کو بھیجا گیا ہے۔

امریکی کانگریس کے ریپبلکن رکن جو ولسن پاکستانی فوج پر ایک طویل عرصے سے تنقید کرتے رہے ہیں اور وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کی مسلسل وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ عمران خان کو ایک 'سیاسی قیدی' قرار دیتے ہیں۔

سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟

بل میں کیا ہے؟

اس بل میں امریکہ کے 'گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاونٹیبلٹی ایکٹ' کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت امریکہ کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے والے افراد پر ویزا اور ملک میں داخلے جیسی پابندی عائد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

اس مجوزہ امریکی بل میں کہا گیا ہے کہ اگر ملک نے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے، تو پاکستان کے آرمی چیف (جنرل عاصم منیر) پر 180 دن کے اندر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

بل کے مسودے میں امریکی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں مبینہ طور پر حزب اختلاف کو دبانے میں ملوث اہم افراد کی نشاندہی کرے اور پھر انہیں پابندیوں کی فہرست میں شامل کرے۔

البتہ اس بل میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ اگر پاکستان حکومت میں فوجی مداخلت کو ختم کرتا ہے اور "غیر قانونی طریقے سے زیر حراست سیاسی قیدیوں" کو رہا کر دیتا ہے، تو امریکی صدر ایسی پابندیاں ختم کرنے کے مجاز ہوں گے۔

شہری آزادیوں کی سنگین صورتحال، لسٹ میں پاکستان اور امریکہ بھی

اس بل میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر پر "جان بوجھ کر سیاسی مخالفین کو غلط طریقے سے ظلم و ستم اور قید کرنے میں ملوث ہونے" کا الزام عائد کیا گیا ہے اور ایسے اہم افراد پر پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کی گئی ہے۔

امریکی کانگریس میں پاکستانی انسانی حقوق اور اس کی جمہوریت سے متعلق پہلے بھی بات ہوئی ہے، تاہم شاید پہلی بار پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس بل کا مقصد عمران خان جیسے سیاسی مخالفین کے خلاف "ظلم و ستم" میں ملوث افراد کو نشانہ بنانا ہے۔

پیر کے روز ہی میڈیا ادارے "دی ہل" سے بات کرتے ہوئے، ولسن نے اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے عمران خان کی "غیر منصفانہ حراست" میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان کی قیادت کو جوابدہ بنانے کی اہمیت پر مزید زور دیتے ہوئے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ ویزا پابندیوں جیسے سفارتی اقدامات کے ذریعے پاکستانی فوج پر دباؤ ڈالیں۔

افغان اور پاکستانی شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی؟

ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اس بل کے تعلق سے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: "پاکستان کے حوالے سے ایک عرصے بعد یہ سب سے اہم قانون سازی میں سے ایک ہے۔

" البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ "اس بل کی منظوری ایک طویل مرحلہ ہو سکتا ہے، تاہم یہ پاکستانی قیادت کو خوفزدہ ضرور کرے گا۔" عمران خان کی رہائی کا مطالبہ

واضح رہے کہ فروری میں کانگریس کے ارکان جو ولسن اور اگست فلوگر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مکتوب بھیجا تھا اور ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔

انہوں نے خان کو پاکستان میں "بڑے پیمانے پر محبوب" رہنما قرار دیا تھا اور ان کی قید کو سابق صدر ٹرمپ کی طرح عدالتی زیادتی سے تعبیر کیا تھا۔

ولسن نے اپنے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے خط کی ایک کاپی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور فلوگر روبیو پر زور دے رہے ہیں کہ "عمران خان کو آزاد کرایں اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں مدد کریں۔

"

ولسن نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایسا ہی ایک خط بھیجا ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عمران خان کی قید کے امریکی اسٹریٹیجک مفادات پر اثرات مرتب ہوں گے۔

خطے میں امن کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری جاری رہے گی، شہباز شریف

پاکستان کا ردعمل کیا رہا؟

پاکستان کے معروف میڈیا ادارے ڈان کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ابھی تک اس بل کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے یا اس پر اس کا رد عمل اور اقدام کیا ہوگا، اس پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا ہے۔

البتہ اخبار نے لکھا ہے کہ اسے سفارتی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ پاکستانی حکام سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان میں اس قانون سازی پر مزید کارروائی میں تاخیر کی کوشش کر سکتے ہیں۔

پاکستانی سفارت کاروں نے اس پیش رفت پر تحفظات کا اعتراف کیا ہے، تاہم وہ پر امید ہیں کہ شاید اس بل کو وہ حمایت حاصل نہ ہو، جس کی نفاذ کے لیے اس کی ضرورت ہو گی۔

صدر ٹرمپ کا امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب

پاکستان پر ایک اور قرارداد

جون 2024 میں اسی طرح کی ایک قرارداد ایوان نمائندگان میں دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور کی گئی تھی اور اس کے حق میں 98 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ اس قرارداد میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پابندیاں عائد کر امریکی کانگریس عمران خان کی میں پاکستان پاکستان کے کانگریس کے پر زور دیا رہے ہیں کیا ہے کے لیے کی گئی گیا ہے

پڑھیں:

بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی

اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔

بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔ 

اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔

وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔

یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔

 امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعوی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی پر اہم پیشرفت
  • امریکا: دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • امریکا, دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار