امریکہ: پاکستانی فوجی سربراہ کے خلاف پابندی کا بل کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) پاکستانی حکام پر پابندیوں کے لیے امریکی کانگریس میں بل پیر کے روز ایک ریپبلکن قانون ساز اور ایک ڈیموکریٹک رہنما نے مشترکہ طور پیش کیا تھا۔ اس بل کا عنوان: "پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ" ہے اور اس میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پیر کے روز یہ بل جنوبی کیرولائنا سے ریپبلکن کانگریس کے رکن جو ولسن اور کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ رکن جمی پنیٹا نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔ اب اس پر مزید غور و خوض کے لیے ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی کمیٹیوں کو بھیجا گیا ہے۔
امریکی کانگریس کے ریپبلکن رکن جو ولسن پاکستانی فوج پر ایک طویل عرصے سے تنقید کرتے رہے ہیں اور وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کی مسلسل وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔
(جاری ہے)
وہ عمران خان کو ایک 'سیاسی قیدی' قرار دیتے ہیں۔سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟
بل میں کیا ہے؟اس بل میں امریکہ کے 'گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاونٹیبلٹی ایکٹ' کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت امریکہ کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے والے افراد پر ویزا اور ملک میں داخلے جیسی پابندی عائد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
اس مجوزہ امریکی بل میں کہا گیا ہے کہ اگر ملک نے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے، تو پاکستان کے آرمی چیف (جنرل عاصم منیر) پر 180 دن کے اندر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔
بل کے مسودے میں امریکی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں مبینہ طور پر حزب اختلاف کو دبانے میں ملوث اہم افراد کی نشاندہی کرے اور پھر انہیں پابندیوں کی فہرست میں شامل کرے۔
البتہ اس بل میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ اگر پاکستان حکومت میں فوجی مداخلت کو ختم کرتا ہے اور "غیر قانونی طریقے سے زیر حراست سیاسی قیدیوں" کو رہا کر دیتا ہے، تو امریکی صدر ایسی پابندیاں ختم کرنے کے مجاز ہوں گے۔
شہری آزادیوں کی سنگین صورتحال، لسٹ میں پاکستان اور امریکہ بھی
اس بل میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر پر "جان بوجھ کر سیاسی مخالفین کو غلط طریقے سے ظلم و ستم اور قید کرنے میں ملوث ہونے" کا الزام عائد کیا گیا ہے اور ایسے اہم افراد پر پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کی گئی ہے۔
امریکی کانگریس میں پاکستانی انسانی حقوق اور اس کی جمہوریت سے متعلق پہلے بھی بات ہوئی ہے، تاہم شاید پہلی بار پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس بل کا مقصد عمران خان جیسے سیاسی مخالفین کے خلاف "ظلم و ستم" میں ملوث افراد کو نشانہ بنانا ہے۔
پیر کے روز ہی میڈیا ادارے "دی ہل" سے بات کرتے ہوئے، ولسن نے اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے عمران خان کی "غیر منصفانہ حراست" میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے پاکستان کی قیادت کو جوابدہ بنانے کی اہمیت پر مزید زور دیتے ہوئے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ ویزا پابندیوں جیسے سفارتی اقدامات کے ذریعے پاکستانی فوج پر دباؤ ڈالیں۔افغان اور پاکستانی شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی؟
ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اس بل کے تعلق سے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: "پاکستان کے حوالے سے ایک عرصے بعد یہ سب سے اہم قانون سازی میں سے ایک ہے۔
" البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ "اس بل کی منظوری ایک طویل مرحلہ ہو سکتا ہے، تاہم یہ پاکستانی قیادت کو خوفزدہ ضرور کرے گا۔" عمران خان کی رہائی کا مطالبہواضح رہے کہ فروری میں کانگریس کے ارکان جو ولسن اور اگست فلوگر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مکتوب بھیجا تھا اور ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔
انہوں نے خان کو پاکستان میں "بڑے پیمانے پر محبوب" رہنما قرار دیا تھا اور ان کی قید کو سابق صدر ٹرمپ کی طرح عدالتی زیادتی سے تعبیر کیا تھا۔ولسن نے اپنے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے خط کی ایک کاپی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور فلوگر روبیو پر زور دے رہے ہیں کہ "عمران خان کو آزاد کرایں اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں مدد کریں۔
"ولسن نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایسا ہی ایک خط بھیجا ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عمران خان کی قید کے امریکی اسٹریٹیجک مفادات پر اثرات مرتب ہوں گے۔
خطے میں امن کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری جاری رہے گی، شہباز شریف
پاکستان کا ردعمل کیا رہا؟پاکستان کے معروف میڈیا ادارے ڈان کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ابھی تک اس بل کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے یا اس پر اس کا رد عمل اور اقدام کیا ہوگا، اس پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا ہے۔
البتہ اخبار نے لکھا ہے کہ اسے سفارتی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ پاکستانی حکام سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان میں اس قانون سازی پر مزید کارروائی میں تاخیر کی کوشش کر سکتے ہیں۔پاکستانی سفارت کاروں نے اس پیش رفت پر تحفظات کا اعتراف کیا ہے، تاہم وہ پر امید ہیں کہ شاید اس بل کو وہ حمایت حاصل نہ ہو، جس کی نفاذ کے لیے اس کی ضرورت ہو گی۔
صدر ٹرمپ کا امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب
پاکستان پر ایک اور قراردادجون 2024 میں اسی طرح کی ایک قرارداد ایوان نمائندگان میں دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور کی گئی تھی اور اس کے حق میں 98 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ اس قرارداد میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پابندیاں عائد کر امریکی کانگریس عمران خان کی میں پاکستان پاکستان کے کانگریس کے پر زور دیا رہے ہیں کیا ہے کے لیے کی گئی گیا ہے
پڑھیں:
امریکی انخلا ایک دھوکہ
اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان
عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔
امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔
امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔
وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔
آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔