معراج النبیﷺ اور سائنسی کمالات
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
جیساکہ آپ سب کو علم ہے کہ آج کی سپیس اپنے آقانبی اکرم ﷺ کے واقعہ معراج النبی اور سائنسی کمالات کے حوالے سے سجائی گئی ہے۔میرایہ ایمان ہے کہ جس کی تعریف خود رب تعالی اور کروڑوں فرشتے کررہے ہوں،اور یہ بھی طے ہو کہ اگرکوئی ایک فردبھی میرے رب کو یاد نہ کرے تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ اس دنیاکی حیثیت اس کے سامنے ایک لنگڑے مچھرکے پرکے برابر بھی نہیں،پھردوسری بات یہ ہے کہ کیایہ ممکن ہے کہ ایک کلرک یاچپڑاسی اپنے کسی عمل سے کسی ملک کے بادشاہ کے درجے کاعہدہ بڑھانے کی سکت رکھتاہو؟جس کے بارے میں میرے رب نے قرآن میں یہ فرما دیاہو کہ ‘ اے نبیﷺ ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا‘لیکن کس کے مقابلے میں بلندکیا،اس کو سمجھنے کیلئے میں ایک دنیاوی مثال دیناچاہتاہوں جس کے بعدہمیں یہ احساس ہوجائے گاکہ ہم آج کس عظیم المرتبت ہستی کاذکرکرنے کیلئے مجلس سجائی ہے کہ جن کے ذکر سے ہمارے درجات بلندہوتے ہیں۔اس کی سمجھ اس وقت آتی ہے جب سدرۃالمنتہا سے سفرشروع ہواتوسب کچھ میرے آقاﷺکے تلووں کے نیچے رہ گیا:
پھر قریب ہوئے اوراور آگے بڑھے، تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم، پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا (نجم:۸:۱۰) اب ہمیں اسی پر اکتفاکرناچاہئے جتنارب کریم نے ہمیں قرآن میں بتایاہے۔ہمیں صدہزارمرتبہ اللہ کا صرف اسی انعام پرشکرگزارہوناچاہئے کہ میرے کریم ورحیم رب نے ہمیں امتِ محمدیہ میں پیدافرمایاکہ قیامت کے روز انہیں اپنی امت کی اس قدرفکرہوگی جب تمام انبیا ’’نفسی نفسی‘‘ پکاررہے ہوں گے تواس محشرکے سخت شدیدترین دن بھی میرے آقارحمت العالمینﷺ ’’یاامتی یاامتی‘‘پکاررہے ہوں گے ۔
قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا صرف پانچ فیصداستعمال کرنے کے بعدانسانی شعور سائنسی کمالات کے افلاک کوچھورہاہے جبکہ بقیہ95فیصد صلاحیتیں انسان سے ابھی تک پوشیدہ ہیں۔وہ علم جوسوفیصد صلاحیتوں کااحاطہ کرتا ہو، اسے پانچ فیصدمحدود ذہن سے سمجھناناممکن امر ہے۔ واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے لیکن جدیدعلم اس کوابھی تک مکمل سمجھ نہیں پایا ۔ معجزات وکرامات کی حقیقت مشاہدے اورفطری قوانین سے مکمل بیان نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ مافوق الفطرت ہوتے ہیں لیکن جدید سائنس آج جہاں تک پہنچ چکی ہے ایسے کاموں کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ ناممکن اورغیرمعقول ومحال ہیں۔واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیے نہیں آتاکہ وہ کہتے ہیں کہ:ایسے فضائی سفرمیں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے غیر معمولی وسائل وذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکزثقل سے نکلنے کیلئے کم ازکم40ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتارکی ضرورت ہے ۔
دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہرخلامیں ہوانہیں ہے جبکہ ہواکے بغیرانسان زندہ نہیں رہ سکتا۔تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں جوحصہ سورج کی مستقیماروشنی کی زدمیں ہے وہاں جلا دینے والی تپش ہے اورجوحصہ سورج کی روشنی سے محروم ہے وہاں مارڈالنے والی سردی ہے۔اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ(کاسمیٹک ریز)خطرناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود کاسمیٹک ریز، الٹراوائلٹ ریزاورایکسرے شعاعیں ہیں جواگر فضائے زمین کے باہر تھوڑی مقدار میں بھی انسانی بدن پر پڑیں توبدن کے آرگانزکیلئے تباہ کن ہوتی ہیں(زمین پررہنے والوں کیلئے زمین کے اوپرموجود فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم ہوجاتی ہے)۔
ایک اورمشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتاہے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیداکی جاسکتی ہے لیکن اگرزمین کے باسی بغیرکسی تیاری اورتمہیدکے خلامیں جاپہنچیں توبے وزنی سے نمٹنابہت ہی مشکل یاناممکن ہے۔آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اوریہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دورِ حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہرچیزسے زیادہ ہے اور اگرکوئی شخص آسمانوں کی سیرکرناچاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتارروشنی کی رفتارسے زیادہ ہو۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ روشنی کی رفتارسے بہت کم رفتارپر زمین پرآنے والے شہابئے ہواکی رگڑ سے جل جاتے ہیں اورفضاہی میں بھسم ہو جاتے ہیں توپھریہ کیونکرممکن ہے کہ حضورﷺ اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکیں۔
مندرجہ بالااعتراضات کی وجہ سے کچھ مخلص مسلمانوں نے یہ تاویل کرنی شروع کردی کہ معراج خواب میں ہوئی اوریہ کہ حضورﷺ غنودگی کی حالت میں تھے اورپھرآنکھ لگ گئی اور یہ تمام واقعات عالم ریامیں آپﷺنے دیکھے یاروحانی سفردرپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کولمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے حالانکہ اسراکے معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پرایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے کیلئے ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں لفظ سبحان الذی سے ابتدا خوداس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیرمعمولی واقعہ جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کرواقع ہوا۔ربِ ذوالجلال کواپنی قدرت کاکرشمہ دکھانا مقصود تھا لہٰذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیااوریہ وقت زمان ومکان کی فطری قیودسے آزادتھا۔واقعہ معراج اگرخواب ہوتاتواس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثر انسان مافوق الفطرت اورمحیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔
آئن سٹائن کانظریہ اضافت یاتھیوری آف ریلیٹویٹی Theory of Relativity دوحصوں پرمبنی ہے۔ایک حصہ نظریہ اضافیت خصوصی کہلاتاہے جبکہ دوسراحصہ نظریہ اضافیت عمومی کے نام سے پہچاناجاتاہے اوراس کوسمجھنے کیلئے ہم ایک مثال کاسہارالیں گے۔
فرض کیجئے کہ ایک ایساراکٹ بنالیا گیا ہے جوروشنی کی رفتار(یعنی تین لاکھ کلومیٹرفی سکینڈ) سے ذراکم رفتارپرسفرکرسکتا ہے۔اس راکٹ پرخلابازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے۔ راکٹ کی رفتاراتنی زیادہ ہے کہ زمین پرموجودتمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظرآتے ہیں۔راکٹ کاعملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتارسے خلامیں سفرکرنے کے بعدزمین کی طرف پلٹتاہے اوراسی تیزی سے واپسی کاسفربھی کرتاہے مگرجب وہ زمین پر پہنچتے ہیں توانہیں علم ہوتاہے کہ یہاں توان کی غیرموجودگی میں ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ اپنے جن دوستوں کووہ لانچنگ پیڈپرخداحافظ کہہ کرگئے تھے،انہیں مرے ہوئے بھی 50برس سے زیادہ کاعرصہ ہوچکاہے اورجن بچوں کووہ غاں غاں کرتاہواچھوڑگئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کااستقبال کر رہے ہیں۔وہ شدید طورپرحیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے توسفرمیں دوسال گزارے لیکن زمین پراتنے برس کس طرح گزرگئے۔ اضافیت میں اسے جڑواں تقاضہ کہاجاتاہے اوراس تقاضے کاجواب خصوصی نظریہ اضافی وقت میں تاخیر کے ذریعے فراہم کرتاہے۔جب کسی چیزکی رفتاربے انتہابڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے لگے تووقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑناشروع ہوجاتاہے،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کیلئے ایک سکینڈ گزراہو توزمینی باشندوں پراسی دوران میں کئی گھنٹے گزرگئے ہوں۔اسی مثال کاایک اوراہم پہلویہ ہے کہ وقت صرف متحرک شے کیلئے آہستہ ہوتا ہے۔ لہٰذااگرکوئی ساکن فردمذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کامنتظرہے تواس کیلئے انتظارکے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: واقعہ معراج روشنی کی یہ ہے کہ زمین کے ہے اور میں یہ ہیں کہ
پڑھیں:
مورو واقعہ: سندھ ہائیکورٹ نے پولیس تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف درخواست مسترد کر دی
سندھ ہائی کورٹ نے مورو واقعے کی تحقیقات کے لیے آئی جی سندھ کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ کمیٹی کا قیام قانون کے دائرہ کار میں ہوا ہے اور اس میں کوئی قانونی سقم موجود نہیں، عدالت نے کہا کہ پولیس کی یہ کمیٹی واقعے میں پولیس کے ردعمل کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے حالات سے بچاؤ کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ پولیس اپنی ہی کارروائی کے خلاف شفاف تحقیقات نہیں کر سکتی اور کمیٹی مفادات کے ٹکراؤ کا شکار ہے۔ تاہم عدالت نے یہ مؤقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مورو جیسے حساس واقعات میں امن و امان قائم رکھنا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مورو واقعے کے دوران دھرنے کے شرکا نے نجی املاک کو نقصان پہنچایا، انسانی جان کا ضیاع ہوا، متعدد افراد زخمی ہوئے اور ہائی وے کی بندش سے عام شہریوں کی زندگی متاثر ہوئی۔
مزید پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ نے پولیس پر زور دیا کہ ایسے حالات میں بروقت اور مؤثر کارروائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ صورتحال بگڑنے سے روکی جا سکے، عدالت نے کہا کہ کمیٹی کا مقصد پولیس کی کارکردگی میں بہتری اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔
فیصلے کے آخر میں عدالت نے مورو واقعے کے تمام مقدمات قانون کے مطابق شفاف تحقیقات کے بعد چلانے کا حکم دیا، فیصلے کے مطابق موجودہ حالات میں کسی مقدمے کو خارج کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔
عدالت نے درخواست کو دیگر متفرق درخواستوں کے ساتھ نمٹاتے ہوئے مسترد کر دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امن و امان پولیس تحقیقاتی کمیٹی ذمہ داری سندھ ہائیکورٹ مورو واقعہ نجی املاک ہائی وے