واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 مارچ ۔2025 )امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان پر سابق وزیراعظم پر ظلم و ستم سمیت انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کے ریاستی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا بل پیش کر دیا گیا ہے رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے نام سے یہ بل جنوبی کیرولائنا سے کانگریس کے ریپبلکن رکن جو ولسن اور کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹ جمی پنیٹا نے پیش کیا جسے غور و خوض کے لیے ایوان نمائندگان کی خارجہ امور اور عدالتی کمیٹیوں کو بھیج دیا گیا ہے.

(جاری ہے)

مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان نے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو 180 دن کے اندر پاکستان کے اہم عہدیداران پر پابندیاں عائد کی جائیں گی، اس بل میں یو ایس گلوبل میگنیٹسکی ہیومن رائٹس اکاﺅنٹیبلٹی ایکٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو امریکا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ملزم افراد کو ویزا اور داخلے سے انکار کرنے کی اجازت دیتا ہے بل کے مسودے میں امریکی انتظامیہ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو مبینہ طور پر دبانے میں ملوث اہم افراد کی نشاندہی کرے اور انہیں پابندیوں کی فہرست میں شامل کرے اگر پاکستان حکمرانی میں فوجی مداخلت بند کر دیتا ہے اور تمام غلط طور پر حراست میں رکھے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کرتا ہے تو یہ امریکی صدر کو ان پابندیوں کو اٹھانے کا مزید اختیار دے گا.

یہ مسودہ بل امریکا میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی مسلسل لابنگکو اجاگر کرتا ہے جو 2022 میں عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے امریکی قانون سازوں میں لابنگ کر رہے تھے 3 سال کے دوران پی ٹی آئی سے وابستہ کارکنوں نے مظاہرے کیے، کانگریس کے ارکان سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان کے سیاسی معاملات میں امریکی مداخلت پر زور دیا جون 2024 میں ایوان نمائندگان میں بھی اسی طرح کی ایک قرارداد دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور کی گئی تھی جس کے حق میں 98 فیصد ووٹ پڑے تھے اس قرارداد میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دبا ڈالیں تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس کے جواب میں کوئی کارروائی نہیں کی.

واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے نے اب تک اس بل پر تبصرہ کرنے یا یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ وہ اس تازہ ترین اقدام کا مقابلہ کس طرح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے قانون سازی پر مزید کارروائی میں تاخیر کی کوشش کر سکتے ہیں یہ بل پیر کی شب پاکستانی سفارت خانے کے سفارتی استقبالیہ میں بھی زیر بحث آیا اگرچہ پاکستانی سفارت کاروں نے اس پیش رفت پر خدشات کا اعتراف کیا لیکن وہ پرامید ہیں کہ بل کو نافذ کرنے کے لیے کافی پذیرائی نہیں ملے گی، انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ واشنگٹن اب بھی پاکستان کو ایک اہم سیکیورٹی پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے اور داعش کے ایک دہشت گرد کی حالیہ گرفتاری اور ملک بدری میں اسلام آباد کے تعاون کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتا ہے گزشتہ ماہ کانگریس کے رکن جو ولسن اور ریپبلکن کانگریس مین اگست فلگر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں ان سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مداخلت کرنے کی اپیل کی گئی تھی.

کانگریس مین ولسن اور فلگر نے اپنے خط میں عمران خان کے امریکی حکام کے ساتھ سابق تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم قدامت پسندوں کے طور پر لکھتے ہیں کہ آپ عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان کی فوجی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں ولسن نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اسی طرح کا ایک خط بھیجا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خان کی قید کے امریکی اسٹریٹجک مفادات پر اثرات مرتب ہوں گے اس کے علاوہ کانگریس کے دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے کئی ارکان نے عوامی طور پر خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ان میں گریگ کاسر، راشدہ طلیب، ہیلی اسٹیونز، الہان عمر، بریڈ شرمین، رو کھنہ، اگست فلگر اور جیک برگمین شامل ہیں اگرچہ بل پیش کیا گیا ہے جو واشنگٹن میں پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مسلسل چھان بین کی نشاندہی کرتا ہے لیکن اس کے امکانات غیر یقینی ہیں.

ولسن سینٹر میں ساتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے اسے پاکستان کے بارے میں گزشتہ کچھ عرصے میں قانون سازی کے اہم ترین حصوں میں سے ایک قرار دیا انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ بل منظور ہونے میں طویل وقت لے سکتا ہے لیکن یہ پاکستان کی قیادت کو خوفزدہ کرے گا.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایوان نمائندگان میں پاکستان پاکستان کے کانگریس کے کرتا ہے دیا گیا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

امریکہ کی جانب سے 19 فیصد ٹیرف عائد کیئے جانے پر پاکستانی وزارت خزانہ نے رد عمل جاری کر دیا

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان کی وزارت خزانہ نے امریکہ کی جانب سے پاکستانی برآمدات پر عائد کیئے گئے 19 فیصد ٹیرف پر موقف جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیاہے کہ امید ہے ٹیرف معاہدہ امریکی منڈی میں پاکستان کیلئے مواقع کا ایک نیا در کھولے گا، ٹیرف کی  شرح پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو تقویت دے گی۔

نجی ٹی وی سماء نیوز کے مطابق امریکا نے پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو مجوزہ شرح سے 10 فیصد کم ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد جبکہ بنگلہ دیش پر 20 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔

شہدائے وطن کو سلام،لسبیلہ میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر  حادثے کو 3سال بیت گئے

ترجمان وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ ٹیرف سے متعلق بات چیت کامیابی سے مکمل ہوگئی ہے، پاکستانی برآمدات پر امریکی منڈی میں 19 فیصد ٹیرف عائد ہوگا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ امید ہے یہ ٹیرف معاہدہ امریکی منڈی میں پاکستان کیلئے مواقع کا ایک نیا در کھولے گا، ٹیرف کی شرح پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو تقویت دے گی، بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبے میں جو ملکی برآمدات کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ فریقین کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے پاکستان پر 10 فیصد کمی کے بعد علاقائی ممالک میں سب سے کم ٹیرف عائد کر دیا
  • کراچی میں امریکی عہدیداروں کو نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایت
  • فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پر امریکی پابندیاں حیران کن ہیں، چینی وزارت خارجہ
  • پاکستان کے بڑے شہرمیں امریکیوں کو نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایت
  • کراچی، امریکی عہدیداروں کو نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایت
  • امریکہ کی جانب سے 19 فیصد ٹیرف عائد کیئے جانے پر پاکستانی وزارت خزانہ نے رد عمل جاری کر دیا
  •  فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پر امریکی پابندیاں حیران کن ہیں، چینی وزارت خارجہ
  • ٹرمپ نے کئی ممالک پر تجارتی ٹیرف کا اطلاق کردیا، پاکستان پر19جبکہ بھارت پر25فیصد ٹیرف عائد
  • امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا
  • امریکی ٹیرف کا عالمی نفاذ شروع، پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں رعایت