قلات میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بننے والے مزدوروں کے ورثا نے مطالبہ کیا ہے کہ ماہ رنگ لانگو اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کے خلاف سخت اور عبرتناک کارروائی کی جائے تاکہ اس سرزمین پر مزید بے گناہوں کا خون نہ بہے۔ اسلام ٹائمز۔ قلات میں بی ایل اے کی سفاکیت کا نشانہ بننے والے مزدوروں کے ورثا کا سخت مطالبہ سامنے آگیا۔ کالعدم دہشتگرد تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے بلوچستان کی ترقی کی دشمن بن چکی ہیں، قلات میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بننے والے مزدوروں (محمد امین شہید، منور حسین شہید، ذیشان خالد شہید، دلاور شہید ) کے لواحقین انصاف کے منتظر ہیں۔ شہید مزدوروں کے ورثا نے مطالبہ کیا ہے کہ ماہ رنگ لانگو اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کے خلاف سخت اور عبرتناک کارروائی کی جائے تاکہ اس سرزمین پر مزید بے گناہوں کا خون نہ بہے، کالعدم بی ایل اے کے دہشت گرد اپنی ناکامیوں سے پریشان، انسانیت اور اخلاقیات کی تمام اقدار بھول چکے ہیں۔

ورثا کا کہنا تھا کہ بی ایل اے کے دہشتگرد دور افتادہ علاقوں سے آنے والے نہتے مزدوروں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں، بی ایل اے عوام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ ان دہشتگردوں کی حقیقت بلوچ عوام کے سامنے عیاں ہو چکی ہے اور بلوچ عوام اب خاموش نہیں رہے گی، اِن دہشت گردوں کا نہ کوئی دین ہے اور نہ ہی کوئی مذہب ریاست اور سکیورٹی فورسز ان بیرونی فنڈنگ پر پلنے والے ملک دشمن عناصر کے عزائم کو ہر صورت ناکام بنائیں گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بی ایل اے کے دہشت مزدوروں کے ورثا

پڑھیں:

اسد زبیر شہید کو سلام!

کے پی پولیس کے ایک اور بہادر افسر ایس پی اسد زبیر نے اپنے بہادر باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وطنِ عزیز پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اسد زبیر کو پوری قوم کا سلام ہو، اُس سے یہی امید تھی، وہ ایک جرات مند باپ کا بہادر بیٹا تھا، جو شجاعت کی لوریاں اور شہادت کی کہانیاں سن کر جوان ہوا تھا، شہادت ہی اس کی آرزو تھی اور شہادت ہی منزل۔ اس کی آرزو قبول ہوئی اور خالقِ کائنات نے اسے اپنے پسندیدہ ترین (Most favourite) افراد یعنی قافلۂ شہداء میں شامل کرلیا۔

دہشت گردی کی آگ نے پھر خیبر پختونخواہ کے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب ہماری سیکیوریٹی فورسز کے گبھرو جوان اور خوبرو افسران وطنِ عزیز پر قربان نہ ہوتے ہوں۔ کہنا اور لکھنا آسان ہے مگر جب جوان بیوہ چھوٹی سی بچی کو اٹھاتے ہوئے اپنے شہید شوہر کی وردی وصول کرتی ہے یا جب بوڑھی ماں اپنے قابلِ فخر بیٹے کی میّت دیکھتی ہے تو وہ کس قیامت سے گذرتی ہیں، ان کا دُکھ اور کرب کوئی نہیں جان سکتا۔ کوئی بھی نہیں۔

دہشت گردی کی موجودہ لہر دیکھ کر مجھے وہ دور یاد آتا ہے جب میں بھی خیبرپختونخواہ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ سب سے پہلے ڈیرہ بازار میں پولیس کی پک اپ دہشت گردی کا نشانہ بنی جس سے پولیس کے تین جوان شہید ہوگئے، اس کے بعد ٹانک میں کئی پولیس افسران ملک پر قربان ہوئے۔

مجھے یاد ہے کہ جس روز میں کوہاٹ پہنچا، اسی رات کو کنٹونمنٹ کی مسجد میں خودکش دھماکا ہوگیا، جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو صحن میں انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے اور مسجد کی دیواروں پر نمازیوں کی چربی لتھڑی ہوئی تھی۔ ورثاء آہ وزاری کررہے تھے اور ہر باشعور شخص سوال کررہا تھا کہ کیا ایسی درندگی کا مظاہرہ اسلام سے معمولی سی بھی عقیدت رکھنے والے لوگ کرسکتے ہیں؟ سب کا جواب ناں میں تھا اور سب دہشت گرد قاتلوں پر لعنت بھیج رہے تھے۔ چند روز بعد ھنگو کے پولیس ٹریننگ کالج کے گیٹ پر دھماکا ہوگیا۔

یہ 2006-8کی بات ہے جب ہم ہر روز کسی نہ کسی ساتھی کا جنازہ اٹھاتے تھے، جنازہ گاہ سے نکلتے تو اسپتال پہنچ جاتے جہاں زخمیوں کی عیادت کی جاتی۔ مگر پورا ملک یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی پولیس نے اس وقت بھی جس مردانگی، جرأت اور شجاعت سے دہشت گردی کا سامنا کیا تھا اور آج بھی جس بہادری سے اس درندگی کا مقابلہ کررہی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کے پی پولیس کا کوئی جوان اور کوئی افسر خطرناک ترین چوکی پر تعیناتی سے کبھی نہیں گبھرایا، نہ کبھی کسی نے ناں کی ہے اور نہ کبھی کسی نے کوئی عذر پیش کیا ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام افسروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مادرِ وطن کا دفاع کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ اُس وقت کے کور کمانڈر پشاور جنرل مسعود اسلم (جو کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہمارے ساتھ لیاقت ونگ میں ہی ہوتے تھے) سے وہاں سیکیوریٹی امور کے سلسلے میں اکثر ملاقات رہتی تھی۔ 2009 میں پریڈ لین راولپنڈی میں جمعہ کی نماز پر مسجد میں دھماکا میں جب ان کا 26 سالہ اکلوتا بیٹا شہید ہوگیا تو میں ان کے ہاں تعزیّت کے لیے گیا۔ وہ اُس صدمے کی حالت میں بھی پوری طرح حوصلے میں تھے اور اُس حالت میں بھی مجھ سے ملتے وقت پشاور پولیس کی تعریف کرتے رہے۔ وہ بار بار کہتے رہے،

"I Salute Peshawar police" جب بھی کوئی خودکش سامنے آیا ہے تو پولیس کا جوان نہ کبھی بھاگا ہے نہ پیچھے ہٹا ہے۔ اُس نے خودکش کو جپھّا ضرور مارا ہے جس کا مطلب ہے وہ موت کو گلے لگانے سے بھی نہیں گبھراتے، I Salute KP Police"۔ بلاشبہ خیبرپختونخواہ پولیس کے جوانوں اور افسروں نے ایسی غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے جو صرف فلموں میں ہی نظر آتی ہے۔ بے شمار واقعات یاد آتے ہیں،

ایک بار ایک خود کش ضلع کچہری کے قریب پہنچ گیا، اس کا ٹارگٹ تھا کچہری کے اندر جاکر سیکڑوں لوگوں کے درمیان جاکر جیکٹ پھاڑے تاکہ بہت زیادہ جانی نقصان ہو مگر اسے مشکوک سمجھ کر سیکیوریٹی پر معمور حوالدار دلاور خان نے اسے للکارا۔ خودکش بمبار نے اسے بار بار وارننگ دی کہ ’’دیکھو میری تمھارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، میں تمہیں موقع دیتا ہوں کہ تم اپنی جان بچاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ میں موت ہوں میرے قریب مت آنا‘‘ یہ سن کر دلاور خان کہ آواز گونجی ’’پیچھے کیسے ہٹ جاؤں، میں ہی ان سیکڑوں لوگوں کا محافظ ہوں، میں تمہاری موت بن کر تمہیں جہنّم واصل کردوں گا‘‘ یہ کہہ کر دلاور خان نے خودکش بمبار کو جپھّا مارا، ساتھ ہی دھماکا ہوا، دلاور خان نے اپنی جان دے دی مگر سیکڑوں شہریوں کی جانیں بچالیں۔ بے شک فوج کے ساتھ کے پی پولیس کے افسروں اور جوانوں نے اپنے خون سے جرأت اور سرفروشی کی حیرت انگیز داستانیں رقم کی ہیں۔پورے خیبرپختونخواہ کی سرزمین شہیدوں کے خون سے لالہ رنگ ہے۔ انھوں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ بے شک پوری قوم ان کی مقروض ہے۔

شہید ایس پی اسد زبیر غیر معمولی جرات مند محافظوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے دادا شہاب الدّین آفریدی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رہ چکے تھے اور اعلیٰ خدمات کے باعث کئی میڈل حاصل کرچکے تھے۔ اسد کے والد اورنگ زیب آفریدی 1962میں پولیس سروس میں شامل ہوئے۔ وہ ایک اسپورٹس مین تھے اور پاکستان کی فٹ بال ٹیم میں بھی کھیل چکے تھے۔ 22 مارچ 1978کو تجوڑی (ضلع بنوں) میں وہ بڑی جوانمردی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے ہوگئے۔ شہید کے پوسٹ مارٹم کے مطابق انھیں سینے میں تین گولیاں لگی تھیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔ اورنگ زیب آفریدی شہید کو ان کی شہادت کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرنے پر قائداعظم پولیس میڈل دیا گیا۔

اسد زبیر اپنے شہید والد کی شہادت کے چند ماہ بعد پیدا ہوا۔ وہ بیس سال کی عمر میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے طور پر پولیس سروس میں شامل ہوا۔ جرأت اور شجاعت اس کے خون میں تھی اور جذبۂ شہادت اس کے خاندان کا ورثہ تھا۔ اس لیے وہ ایک نڈر اور بے خوف افسر تھا۔ اس کے علاوہ انتہائی خوش اخلاق تھا اور اپنی فورس میں بے حد مقبول اور ہر دلعزیز بھی تھا۔ 24 اکتوبر 2025کو جب دہشت گردوں نے سیکیوریٹی چیک پوسٹ غلمینہ کو نشانہ بنایا تو اسد زبیر (جو ہنگو میں ایس پی آپریشنز تھے) فوری طور پر اپنے ساتھ دو گن مین لے کر موقع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوئے۔ دہشت گرد اسی تاک میں تھے جب وہ دربند پہنچے تو دہشت گردوں کی نصب کردہ (Improvised Explosive Device) IED پھٹ گئی جس سے ایس پی اسد زبیر اور ان کے گن مین شہید ہوگئے۔

ہنگو پولیس کا ہر جوان دکھی دل سے کہتا ہے کہ اگر ان کی گاڑی بلٹ پروف ہوتی تو ہم اتنے اعلیٰ کمانڈر سے محروم نہ ہوتے۔ ہمارے محافظوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں، ان کے خون کا ایک ایک قطرہ قیمتی اور مقدّس ہے، بڑی سے بڑی رقم اور بڑے سے بڑا میڈل ان کی قربانی کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سیکیوریٹی فورسز کی اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے اور اس کے لیے جتنا بھی پیسہ خرچ کرنا پڑے خرچ کر ڈالے۔ فوری طور پر کے پی اور بلوچستان پولیس کو بلٹ پروف گاڑیاں مہیا کی جائیں تاکہ سینئر رینک کے افسر جب پٹرولنگ کے لیے نکلیں تو دہشت گردوں کی جانب سے نصب کردہ IED سے محفوظ رہ سکیں۔ بلٹ پروف گاڑیوں کے علاوہ انھیں ہیوی ویپن، ڈرون اور ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ وفاق کے حکمران بھی صوبے کے شہداء کے گھروں پر تعزیّت اور یکجہتی کے اظہار کے لیے ضرور جایا کریں۔

یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ خیبرپخونخواہ میں دہشت گردوں کے لیے عوامی سطح پر سپورٹ یا ہمدردی میں بہت کمی آئی ہے۔ عوام اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ دہشت گرد مذہبی لوگ نہیں بلکہ کرائے کے قاتل ہیں جو دشمن ملک سے پیسے لے کر وطنِ عزیز میں شیطانیت اور درندگی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں۔

فوج اور پولیس کے افسران اور جوان اپنے لہو سے امن اور سلامتی کے جو چراغ روشن کررہے ہیں، ان کی روشنی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور جہالت اور درندگی کے اندھیرے کم ہورہے ہیں، انشاء اللہ بہت جلد سحر طلوع ہوگی، دیرپا امن، سکون اور خوشحالی کی سحر۔ خیبرپختونخواہ پولیس کے شہیدوں کو سلام۔ اور شہریوں کی حفاظت کرنے والے جری اور بہادر جوانوں اور افسروں کے لیے دعائیں۔ اللہ تعالیٰ عوام کے محافظوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں۔

متعلقہ مضامین

  • قلات میں بھارتی حمایت یافتہ 4 دہشتگرد ہلاک‘جنگی اسلحہ بھی برآمد
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • چہل قدمی کے شوقین افراد کے لیے خوشخبری، تحقیق میں نیا حیران کن فائدہ سامنے آگیا
  • قلات میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 4 بھارتی سرپرستی یافتہ دہشتگرد ہلاک
  • قلات میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، فتنہ الہندوستان کے 4 دہشت گرد ہلاک
  • سکیورٹی فورسز کا قلات میں آپریشن، بھارتی حمایت یافتہ 4 دہشت گرد جہنم واصل
  • قلات میں سکیورٹی فورسز  کی کارروائی؛ بھارتی پراکسی فتنۃ الہندوستان کے 4 دہشتگرد ہلاک
  • قلات میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن:بھارتی حمایت یافتہ فتنۃ الہندوستان کے 4 دہشت گرد ہلاک
  • پاکستان آئیڈل میں جج بننے پر تنقید، فواد خان کا ردعمل آگیا
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مسلسل تاخیر، وجہ سامنے آگئی