غزہ میں اسرائیلی درندگی جاری ہے، مسلسل آٹھویں روز حملوں میں7بچوں سمیت مزید 37فلسطینی شہید ہوگئے۔ اسرائیلی حملوں میں الجزیرہ کے رپورٹر حسام اور ایک صحافی منصور بھی شہید ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جنگ میں 50ہزار 82 فلسطینی شہید ہو چکے۔
بچوں کی عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق رواں ہفتے اسرائیلی جارحیت میں 270 فلسطینی بچے شہید ہوئے۔مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں نے آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم نو آدر لینڈ کے ڈائریکٹر بلال حمدان سمیت تین فلسطینیوں کو شدید زخمی کردیا، جس کے بعد اسرائیلی فوج نے تینوں کو گرفتار کرلیا۔ فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے 9ارکان مسلسل تیسرے روز لاپتہ ہیں، اسرائیلی افواج نے رفح میں ان کا محاصرہ کیا تھا۔سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا ہے غزہ میں صورتحال خطرناک ہوچکی ہے۔
امدادی اداروں کے 100میں سے 30ارکان حفاظت کے لیے غزہ چھوڑ رہے ہیں۔ادھر یمنی حوثیوں نے اسرائیل کے بن گوریان ایئرپورٹ کو کامیابی سے نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔انھوں نے بحیرہ احمر میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ٹرومین کو بھی نشانہ بنانے کا دعوی کیا اور کہاکہ یمن پر حملے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔
ادھر شام میں درعا کے قریب اسرائیلی حملے میں خاتون سمیت5 افراد شہید ہوگئے۔سعودی عرب اور مصر نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے اسرائیل کی جانب سے ایجنسی کے قیام اور مغربی کنارے میں 13 نئی بستیوں کی منظوری کی شدید مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے فلسطینی المقاصداسپتال کو 64.
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آ کر غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا اعلان کر دیا‘ دنیا میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ مقامی باشندوں کوان کے علاقوں سے بزور قوت نکالنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا خیال بہت پرانا ہے‘صیہونی سیاسی دانشوروں نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے لیکن تمام ترکوششوں، سازشوں اور جنگوں کے باوجود اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حمایتی امریکا کو منہ کی کھانا پڑی،کیونکہ دنیا میں کسی بھی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی ۔ غزہ میں جنگ بندی کے بعد مغربی کنارے پر آباد فلسطینی باشندوں پر یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کے حملے، اس ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں سات سے آٹھ لاکھ یہودیوں پر مشتمل بستیاں تعمیرکر رکھی ہیں۔ غزہ کے بعد اب مغربی کنارے میں بھی اسرائیل فلسطینی آبادیوں کو حملوں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ مغربی کنارے میں بھی غزہ جیسے حالات پیدا کرکے فلسطینیوں کے انخلا کا جواز پیش کیا جاسکے۔
صدر ٹرمپ سے بائیڈن انتظامیہ نے بھی غزہ کے فلسطینیوں کو اُردن منتقل کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا اور یہ اُردنی اور قطری حکام کے ساتھ سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی ملاقاتوں کے دوران پیش کیا گیا تھا مگر اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اب بھی اُردن، مصر اور قطر نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کو صرف دو ریاستوں کے فارمولے کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔لیکن امریکا کے صدر ٹرمپ اور ان کے نائب صدر اب بھی اپنے اس ارادے میں لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کے خلاف عرب لیگ کی جوابی تجویزکو باضابطہ طور پر منظورکر لیا تھا‘ او آئی سی نے عالمی برادری سے منصوبے کی حمایت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے، دوسری جانب فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کو غزہ کی تعمیر نو کے عرب منصوبے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے، جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔اب یہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ اسرائیل نے جنگ بندی ختم کر کے غزہ میں کارروائیوں کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے‘ ادھرامریکی صدر ٹرمپ فلسطینیوں کو غزہ سے ہمسایہ ملک مصر اور اردن منتقل کرنے کے مطالبے پربدستور قائم ہیں ۔عجیب بات ہے کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم تک نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ سے تباہ ہونے والی غزہ کی پٹی 2007 سے اسرائیلی ناکہ بندی کے تحت ایک فلسطینی علاقہ ہے۔اس معاملے میں کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہے۔
اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جنگی جارحیت نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس میں پانی، بجلی، اسپتال اور خوراک کی قلت نمایاں ہے۔ توقع تھی کہ جنگ بندی سے امدادی تنظیموں کو متاثرہ علاقوں میں پہنچنے اور عوام کو ضروری سہولیات فراہم کرنے کا موقع ملے گا، لیکن ایسا اسرائیل نے نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی درپیش ہیں۔
اسرائیل کا جنگی جنون ہمیشہ سے خطے کے امن کے لیے ایک خطرہ رہا ہے اور اسرائیل چونکہ ایک غاصب ریاست ہے تو بطور غاصب ریاست اس کا ہمیشہ سے یہ چلن رہا ہے کہ جارحیت کر کے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو دبا دے۔ غزہ کی جنگ بندی بلاشبہ ایک خوش آیند قدم ہے، جس سے خطے میں امن قائم کرنے کی امید پیدا ہوئی ہے، تاہم اصل کامیابی تب ہوگی جب مسئلہ فلسطین کا مستقل حل تلاش کیا جائے گا اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دیے جائیں گے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھی اس انداز میں کام کر رہے ہیں اور ان کی جو سوچ ہے‘ اسے مدنظر رکھا جائے تو حالات کچھ زیادہ اچھے نظر نہیں آتے۔ فلسطینیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ انتہائی کمزور پوزیشن میں ہیں۔ فلسطینیوں کے اندر بھی تقسیم بہت گہری ہے۔ شروع میں یہ تقسیم مذہبی نوعیت کی تھی ‘اس وجہ سے عیسائی فلسطینی رہنما جارج ہباش الگ ہوئے‘ اس کے بعد مسلم فلسطینیوں میں سیکولر لبرل اور مذہبی تقسیم پیدا ہوئی ۔
یوں فلسطینیوں کی قوم پرست تحریک کا خاتمہ ہوا جس کا تمام تر فائدہ اسرائیل کو ہوا ۔ دوسری جانب حماس نے پی ایل او اور الفتح کی مخالفت شروع کر دی ‘یوں فلسطینی تحریک انتہائی کمزور پوزیشن میں چلی گئی۔ اسرائیل مسلسل آگے بڑھتا چلا گیا ‘اسے یورپ اور امریکا کی حمایت وراثت میں ملی ہے۔ جہاں تک عرب ملکوں کا تعلق ہے تو ان کی پالیسی میں بھی بہت فرق ہے۔
ماضی میں شام اور عراق بعث پارٹی کے زیر اثر رہا ہے جب کہ مصر اور یمن بھی قوم پرست اور سوشلسٹ خیالات والے حکمرانوں کے زیر اثر رہا ہے جب کہ تیل پیدا کرنے والے امیرعرب ملکوں کی پالیسی ان کے برعکس تھی ‘شہنشاہ ایران کے دور میں ایران کی پالیسی امریکا اور مغرب نواز تھی جب کہ آج کی ایرانی حکومت کی پالیسی امریکا اور مغرب کے خلاف ہے۔اس تقسیم کا بھی فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی پر گہرا اثر پڑا ہے۔
فلسطینی آج کے دورمیں سب سے زیادہ تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں ۔امریکا کے عزائم واضح ہو چکے ہیں۔ برطانیہ اور یورپی یونین کی پالیسی بھی فلسطینیوں کے بہت زیادہ حق میں نظر نہیں آتی۔ جس طرح برطانیہ اور یورپ میں یوکرین میں صدر زیلنسکی کا ساتھ دیا ‘اس طرح یورپ نے فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا ۔ روس یوکرین میں بری طرح پھنسا ہوا ہے ‘اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ کسی طرح امریکا کے صدر ٹرمپ کی مدد سے یوکرین کے بحران سے نکل جائے۔ اسی لیے روس نے شام میں بشار الاسد حکومت کو بچانے کے لیے کوئی قابل عمل کام نہیں کیا۔ چین کا معاملہ بھی خاصا پیچیدہ ہے ۔
چینی قیادت امریکا کے خلاف ضرور ہے لیکن وہ امریکا کے ساتھ ایک حد سے زیادہ تنازعہ کو بڑھانا نہیں چاہتی۔اسی لیے تنازعہ فلسطین کے معاملے میں چینی قیادت بھی عملی قدم اٹھانے کے قابل نہیں آتی۔بھارت کے لیے تو یہ فضا خاصی ساز گار ہے اس لیے وہ بھی فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ امیر عرب ملکوں کی پوزیشن بھی واضح ہے۔ ان کا مین فوکس تجارت اور سرمایہ کاری پر ہے۔ اس لیے وہ بھی کوئی بڑا تنازعہ کھڑا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ یوںدیکھا جائے تو فلسطینی قیادت کو ہی اپنے لیے کوئی راستہ بنانا پڑے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو فلسطینیوں کے اقوام متحدہ امریکا کے کی پالیسی کی حمایت کرنے کا کے ساتھ کرنے کے کے بعد نہیں ا اور اس رہا ہے کیا ہے کے صدر کے لیے غزہ کی کر دیا دیا ہے
پڑھیں:
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل کے وزیر اعظم نے قطر میں حملہ کرکے ہمام الحیہ سمیت پانچ لوگوں کو شہید تو کردیا مگر اپنے مقصد کی حصولیابی میں ناکام رہا کیونکہ اس کا اصل ہدف تو حماس رہنما خلیل الحیہ تھے جو اپنے ساتھیوں سمیت زندہ بچ گئے لیکن اس حماقت نے نیتن یاہو سمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رسوا کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخرنیتن یاہو پر اچانک اس خودکش حملے کا جنون کیوں سوار ہوا؟ اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاج کا دباؤ کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن 9ستمبر کو اس حرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔امسال کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے تمام 193رکن ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے جنہیں ایک ملک، ایک ووٹ” کی بنیاد پر برابر کا حق حاصل ہے ۔جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں سبھی اراکین کو قراردادوں پر ووٹ دینے کے یکساں اختیارات حاصل نہیں ہے اور سب برابر بھی نہیں ہیں۔ چند مستقل ارکان ممالک کے پاس ویٹو کا حق ہے جس استعمال کرکے وہ سارے لوگوں کی آواز دبا دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کا اس سال موضوع ہے :بہتر ساتھ:امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے بھی زیادہ۔یہ غیر معمولی اجلاس 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔12 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ‘نیویارک ڈیکلیئریشن’ کی منظوری دی تاکہ ‘مقررہ مدت کے اندر، ٹھوس، ناقابل واپسی اقدامات’ کیے جاسکیں ۔اجلاس میں اس قراراداد کے حق میں 142 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ بڑے دنوں کے بعد ہندوستان نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران غزہ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں کا اجلاس ہو گا جس میں امکان ہے کہ برطانیہ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر لے گا۔فرانس سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اس دوران فلسطین کو تسلیم کرکے دو ریاستی حل پر زور دینے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہوئی ہے اس لیے فلسطین کو مبصر سے رکن کا درجہ مل جائے گا۔
اسرائیل قطر میں حماس پر حملہ کرکے فلسطین کی رکنیت کو اور بھی زیادہ اہم اور آسان بنادیا ہے ۔پچھلے سال یعنی 2024 میں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات دینے کے لیے ووٹ دے کر سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنائے ۔اس قرارداد کو 143 بمقابلہ 9 ووٹوں کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ 25 ارکان غیر حاضر تھے ۔ مخالفین میں صرف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوو اور پاپوا نیو گنی جیسے ممالک تھے لیکن اس ایک سال کے اندر غیر حاضر ممالک کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے اور اس میں فرانس و برطانیہ جیسے ویٹو والے ممالک ہوں گے ۔اسی طرح دو سال قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے حق میں 120کے خلاف صرف 14 ووٹ پڑے تھے لیکن 45کی غیر حاضری بڑی رکاوٹ تھی یہ اعدادو شمار فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری کا ثبوت ہیں۔
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کو روکنے کے لیے اسے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی براہِ راست بات چیت ، سرحدوں پر امن و سلامتی اور
یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل کے حل سے جوڑ دیا ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے ‘نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی’ اس طرح کی شرائط لگا کر
تو روس اور یوکرین کی رکنیت بھی ختم کردینی چاہیے لیکن اس کا تو تصور بھی محال ہے کیونکہ روس ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور یوکرین
مغرب کا حلیف یا آلۂ کار ہے ۔ اس لیے ان پر امریکہ بہاد ر یہ شرائط نہیں رکھے گا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اسرائیل کی علامتی
شکست ہونے کے سبب اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے 18اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا ۔
سلامتی کونسل کی اس ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے بہت زیادہ حمایت ملی تھی ۔ اس کے حق میں 12ووٹ پڑے تھے مگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا تھا اور ریاستہائے متحدہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔اس لیے کہنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ کی ماں جمعیت اقوام کے بارے میں علامہ اقبال نے جو کہا تھا وہ اب بیٹی پر بھی صادق آتا ہے
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ عجیب منافقت ہے کہ 144ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس سے قبل امریکی اتحادیوں میں سے فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے نے فلسطین حمایت کی تھی مگر یورپی ممالک اس پر آمادہ نہیں تھے ۔ یہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے روس اور چین، اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ اس طرح روس کے لئے کوسوو اور چین کے لئے تائیوان کو رکن بنانے میں آسانی ہوگی ۔ اس بار یوروپ کی برف پگھلی ہے ۔ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل کا وقت آ گیا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا تھا کہ ، ”یوروپی یونین کی جانب سے یوروپی کمیشن کو اپنی توقعات کا اظہار کرنا ہو گا۔ اسے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی اس اپیل کو سننے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کے فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کی گئی تھی۔ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے پہلے دن پرفرانسیسی وزیر خارجہ باروٹ نے مندجہ بالابیان دیا تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت کرنے والے فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ دو ملکی حل پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالے ۔ یہ فرانس کی طرف سے ایک تیز حملہ تھا کیونکہ وہ فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کے وعدے کے چند دن بعد ہی غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے ۔ فرانس کی جانب سے اس صدائے امن کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ دیگر مغربی ممالک نے
دوسرے ملکوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیلجیئم نے امسال 9 ستمبر سے شروع ہو رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کردی ۔ بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے پیش نظر کیا گیا ہے ، جہاں اسرائیلی جارحیت زیادہ تر آبادی کو کم از کم ایک بار بے گھر کر چکی ہے اور اقوام متحدہ نے قحط اور بھکمری کو تسلیم کیا ہے ۔
بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ”اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کے کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیلجیئم کو اسرائیلی حکومت اور حماس کے ‘دہشت گردوں’ پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے ۔یہ اسرائیلی عوام کو سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اور انسانی قانون کا احترام اور پاسداری کرے جو اس کے برعکس زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔امسال 31جولائی (2025)کو فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مالٹا نے طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ”ذمہ دار ملک کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے تصور کو نظریہ سے عملی شکل دینے کے لیے کام کریں۔ کینیڈا کے صدر میک کارنی نے کہا کہ ”کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس پر اسرائیل کو ایسی مرچی لگی کہ اس کے وزارت خارجہ نے لکھا ”کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے انعام ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی مغربی ممالک کے ان اعلانات کے خلاف اسرائیلی موقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے حماس کے لیے انعام قرار دیا، نیز اسے غلط وقت میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ اپنے بین الاقوامی حلیفوں کے پیٹھ پھیر لینے سے بے چین ہوکربن یامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ابتداء میں ہی قطر کے اندر یہ ناکام حملہ کرکے مغربی ہمدردوں کواور بھی دور کردیا ہے ۔ فرانس اور سعودی عرب کے مشترکہ صدارت سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے نیویارک دفتر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس نے اسرائیل کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے لڑائی کو روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ جنگ بندی ”ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈالے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے ناقدعالمی رہنما مل کر نیتن یاہو کے ذریعہ تباہ کرنے کی کوشش کا مقابلہ دو ریاستی حل سے کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
٭٭٭