احتجاج اور دھرنے دینے والے بے گناہ مزدوروں کے قتل پر کیوں خاموش ہیں؟ سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی—فائل فوٹو
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے گوادر کے علاقے کلمت میں دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے گناہ معصوم مسافروں کو بس سے اتار کرشناخت کی بنیاد پر قتل کرنا گھناؤنی اور بزدلانہ کارروائی ہے۔
کوئٹہ سے جاری کیے گئے مذمتی بیان میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے بلوچستان کی روایات، مہمان نوازی اور امن پسندی کو پامال کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا کر وحشیانہ فعل انجام دیا، شناخت کے بعد مسافروں کو قتل کرنا درندگی اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔
فائرنگ کا واقعہ کلمت کے علاقے میں پیش آیا، جہاں دہشتگردوں نے گوادر سے کراچی جانے والوں پر فائرنگ کی۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف قوم کے غیر متزلزل عزم کو ایسی کارروائیوں سے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ جاں بحق افراد کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
سرفرازبگٹی نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے احتجاج اور دھرنوں کی کال دینے والے اس سفاکانہ حملے پر کیوں خاموش ہیں؟ بے گناہ مزدوروں کے قتل پر معنی خیز خاموشی رکھنے والے کس کی حمایت کر رہے ہیں؟ خاموشی کو رضا مندی سمجھا جاتا ہے، یہ ثابت ہو رہا ہے کہ کون کس کا سہولت کار ہے؟
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہارڈ کور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور جنگ جاری رہے گی اور منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی بے گناہ
پڑھیں:
تھانہ رمنا حملہ کیس، عدالت نے پی ٹی آئی کارکنوں کے پُرتشدد احتجاج کو دہشتگردی قرار دے دیا
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے 9 مئی 2023 کے پُرتشدد مظاہروں کے مقدمے میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 11 کارکنوں اور ایک رکنِ قومی اسمبلی کو دہشت گردی کا مجرم قرار دے دیا۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت جج طاہرعباس سِپرا نے 9 مئی کیس میں تھانہ رمنا پر حملہ جلاؤ گھیراؤ کیس میں اپنے 42 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں قرار دیا کہ یہ واقعات دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں اور ملزمان نے ریاستی اداروں پر حملہ کر کے حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی۔
عدالت نے کہا کہ ملزمان سیاسی جماعت کے رکن ہیں جو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری پر احتجاج کر رہے تھے، واضح ہے کہ ملزمان حکومت کو عدم استحکام کا شکار ، لا انفورسمنٹ ایجنسیز اور عوام میں دہشت پھیلا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے، پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے تاہم قانون سیاسی سرگرمی کی آڑ میں پرتشدد کارروائیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔
عدالت نے تمام 11 ملزمان کو مختلف دفعات کے تحت مجموعی طور پر 27 سال 3 ماہ قید کی سزا سنائی تاہم چونکہ تمام سزائیں اکٹھی چلیں گی تو اس لیے ہر مجرم کو 10 سال قید کاٹنی ہو گی۔ سزا پانے والے افراد میں زریاب خان (نوشہرہ)، محمد اکرم، میرا خان (پارہ چنار)، عبدالطیف (اپر دیر/چترال)، سمئول رابرٹ (مردان )، وزیر زادہ (کیلاش ویلی)، عبدالباسط (ہری پور)، شان علی (سرگودھا)، شاہ زیب (باغ)، محمد یوسف (افغانستان، اسلام آباد مقیم)، سہیل خان (مانسہرہ) شامل ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کے اسلام آباد کو محفوظ ترین شہر سمجھا جاتا ہے جہاں غیر ملکی سفارت خانے بھی واقع ہیں، ایسے شہر میں پولیس اسٹیشن پر ہتھیاروں سے حملہ انتہائی سنگین جرم ہے جو سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ملزمان نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا، پولیس پر فائرنگ کی، موٹر سائیکلیں نذر آتش کیں اور عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔
عدالت نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن اپنے دلائل سے مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی اور چونکہ یہ جرم اجتماعی طور پر کیا گیا، اس لیے تمام ملزمان کو یکساں طور پر ذمہ دار قرار دیا گیا۔