بجلی ایک روپے یونٹ سستی ہو گی: حکومت، آئی ایم ایف میں پانی مہنگا کرنے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بات چیت کا آغاز عید کے فوراً بعد ہو رہا ہے۔ بجٹ مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف کا ایک تکنیکی مشن متوقع طور پر 4 اپریل کو پاکستان پہنچے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں بجٹ کے اہداف کا تعین کیا جائے گا اور ریونیو اقدامات سمیت بجٹ کے امور پر اتفاق رائے کے بعد ہی آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس ہوگا۔ آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس اپریل کے اواخر یا مئی کے آغاز میں ممکن ہے جس میں پاکستان کے لئے قرض کی قسط کی منظوری دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف کسی حد تک رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بھی ریلیف دینے پر آمادہ ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے سٹاف لیول ایگریمنٹ کے تحت نئی کاربن لیوی متعارف کرانے پر بھی اتفاق ہوا۔ اس سے حاصل ہونے والی بچت کو بجلی کے صارفین کو قیمت میں ریلیف دینے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی ٹیرف میںاس لیوی سے حاصل آمدن کی حد تک ریلیف دینے پر اتفاق کیا ہے۔ تمام صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے یونٹ تک ریلیف ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پہلے ہی کیپٹو پاور پلانٹس لیوی لگا چکی ہے جبکہ اس کے ساتھ کاربن لیوی الگ سے لگائی جائے گی جو موسمیاتی قرضہ پلان کا حصہ ہے۔ ممکنہ طور پر یہ بجٹ میں لگے گی۔ حکومت کی جانب سے بجلی صارفین کیلئے ریلیف پیکیج پر بھی کام جاری ہے۔ آئی ایم ایف کی منظوری سے پیکیج کا اعلان کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کمی کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ پانی کی قیمتوں میں اضافے اور آٹوموبائل سیکٹر کو عالمی تجارت کے لیے کھولنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے بجلی کی قیمت میں کمی کا اعلان چند دنوں میں متوقع ہے۔ اس کا اطلاق یکم اپریل 2025 سے متوقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کاربن لیوی، پانی کی قیمتوں اور آٹوموبائل پروٹیکشن ازم سمیت دیگر بڑے اقدامات پر عمل درآمد یکم جولائی 2025 سے متوقع ہے۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کا ایک اور وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ نئے مالی سال کے بجٹ پر فیس ٹو فیس، آن لائن مشاورت جاری رہے گی۔ آئی ایم ایف سے مشاورت کے بعد بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش کیا جائے گا۔ پراپرٹی کی خرید وفروخت پر آئی ایم ایف ایک حد تک ریلیف دینے پر آمادہ ہے۔ جائیداد کی خرید وفروخت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی جائے گی۔ جائیداد کی خرید وفروخت پر ود ہولڈنگ اور انکم ٹیکس برقرار رہیں گے۔ آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد نہ کیا تو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے قرض بھی نہیں ملے گا۔ اگر پاکستان نے اگلے بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانیں تو اگلی قسط بھی نہیں ملے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ذرائع کا کہنا ہے ا ئی ایم ایف کے آئی ایم ایف کیا جائے گا کے ساتھ
پڑھیں:
بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ کر دیا، ذرائع
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی : فوٹو فائلبھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ کر دیا، بھارتی سیکریٹری آبی وسائل نے پاکستانی ہم منصب کو خط کے ذریعے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا بھارتی اعلان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش جنگ سمجھی جائے گی، پوری قومی قوت سے جواب دیا جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے...
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔