فیروز خان کی سابق اہلیہ علیزہ سلطان نے ڈیلی وی لاگنگ کیوں چھوڑ دی؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
طلاق کے بعد اداکار فیروز خان کی سابق اہلیہ علیزہ سلطان نے ماڈلنگ اور ڈیلی وی لاگنگ شروع کر دی تھی۔ وہ مختلف مواقع پر اپنے بچوں سلطان اور فاطمہ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کرتی رہتی تھیں۔ تاہم، کچھ وقت بعد انہوں نے ڈیلی وی لاگ بنانا بند کر دیا۔
ڈیلی وی لاگنگ بند کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے علیزہ سلطان کا کہنا تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی زندگی کے حوالے سے بہت زیادہ پوسٹ نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا جو وی لاگ وہ کر رہی تھیں اس سے ان کی زندگی بے نقاب ہو رہی تھی۔ اور وہ زندگی کے بارے میں زیادہ باتیں بتا رہی تھیں کہ ان کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے اس لیے انہیں وہ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
علیزہ سلطان کا کہنا تھا کہ ان کا پسندیدہ وی لاگر رجب بٹ ہے، لیکن وہ انہیں کبھی کبھی دیکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی خالہ رجب بٹ کی بہت بڑی فین ہیں اور انہوں نے خالہ کی وجہ سے ہی وی لاگ دیکھنا شروع کیا تھا۔
سنگل پیرنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے کیونکہ آپ کو ماں اور بطاپ دونوں کی ذمہ داریاں نبھانی ہوتی ہیں اور یہ بولنا کہ میں صرف اتنا کر سکتا تھا وہ آپشن نہیں ہوتا۔ لیکن جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو صبر کا پھل مل جاتا ہے۔
واضح رہے کہ علیزہ سلطان نے 2018 میں اداکار فیروز خان سے شادی کی تھی اور انہیں دو بچے ہیں۔
دونوں کے درمیان 2021 میں اختلافات پیدا ہوئے تھے اور ستمبر 2022 میں ان کے درمیان طلاق ہوگئی تھی۔ جس کے بعد فیروز خان اور ان کی سابقہ اہلیہ علیزا سلطان کے درمیان بچوں کی تحویل کے معاملے پر عدالت میں تصفیہ ہوا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رجب بٹ علیزہ سلطان فیروز خان فیروز خان شادی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: علیزہ سلطان فیروز خان فیروز خان شادی علیزہ سلطان فیروز خان انہوں نے
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔