غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں سے شدید مظالم کی نشاندہی ہو رہی ہے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی معاون کاری کرنے والی ایجنسی نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں، بشمول گنجان آباد علاقے پر حملوں میں شہریوں پر شدید مظالم کی نشاندہی ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کے امور کے کوآرڈینیشن آفس کے ترجمان جینس لائیرک نے جنیوا میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' غزہ میں انسانی جان اور وقار سخت نظر انداز ہو رہا ہے۔
جنگی کارروائیاں جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ مظالم کی علامتیں ہیں۔‘‘جینس لائیرک کا مزید کہنا تھا، ''ہر روز ہم نے بچوں کو قتل ہوتے دیکھا ہے، امدادی کارکنوں کو مارا جا رہا ہے، لوگوں کی بقا کو خطرے میں ڈال کر زبردستی بے گھر کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کے امور کے کوآرڈینیشن آفس کے ترجمان نے اس امر کی طرف نشاندہی بھی کی کہ اس صورتحال میں، ''غزہ میں فلسطینی دھڑوں کی جانب سے راکٹ فائر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
‘‘غزہ پٹی: حماس کا ایک اور اعلیٰ عہدیدار ہلاک
اسرائیل کی تردید
اسرائیل نے غزہ میں انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی تردید کی اور حماس پر الزام لگایا ہے کہ اس کے جنگجو اپنی کارروائیوں کے لیے شہریوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تاہم حماس کے عسکریت پسند جنگجو اس سے انکار کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع کے ساتھ ساتھ حماس کے رہنماؤں پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے جاری، مزید 23 فلسطینی ہلاک
خوراک اور طبی ذخائر کا خاتمہ
یو این ایڈ کورڈینیشن ایجنسی کے ترجمان جینس لائیرک نے کہا کہ 2 مارچ سے غزہ انکلیو میں خوراک اور طبی سامان کے داخلے کو اسرائیلی حکام نے بلاک کر رکھا ہے جس کے سبب خوراک اور طبی ذخائر بہت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے جمعے کو اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں خون کی فراہمی کی بھی شدید قلت ہے جس کے سبب زخمیوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔
غزہ میں مصری سرحد کے قریب اسرائیلی عسکری کارروائیاں جاری
مقبوضہ فلسطینی علاقے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ترجمان رک پیپرکورن نے یروشلم سے ویڈیو لنک کے ذریعے جینوا میں نامہ نگاروں کو بیان دیتے ہوئے کہا،''زخمیوں کے علاج سے متعلق ہر چیز تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر ماہ 4 ہزار پانچ سو خون کی پیکٹس کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اب خون کے 500 سے بھی کم یونٹس دستیاب ہیں۔
‘‘7 اکتوبر 2023ء کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ہزاروں مسلح افراد کے دہشت گردانہ حملے، جس میں اسرائیلی ذرائع کے مطابق 1,200 ہلاکتیں ہوئی تھیں اور حماس جنگجو 251 اسرائیلیوں کو اغوا کر کے لے گئے تھے، کے بعد سے شروع ہونے والی اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں فلسطینی حکام کے مطابق اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چُکے ہیں۔
ادارت عاطف توقیر اور رابعہ بگٹی
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں اسرائیلی اقوام متحدہ کے ترجمان
پڑھیں:
چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔
اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔