UrduPoint:
2025-09-18@11:13:22 GMT

امریکی عدالت کا وائس آف امریکہ کے حق میں فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

امریکی عدالت کا وائس آف امریکہ کے حق میں فیصلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مارچ 2025ء) ایک امریکی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے امریکی فنڈز سے چلائے جانے والی بین الاقوامی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ (VOA) کو بند کرنے کی کوششوں کو روک دیا۔

جمعہ کے روز عدالت نے اس فیصلے کو منجمد کرتے ہوئے اس اقدام کو ''من مانی اور غیر منطقی فیصلہ سازی کی ایک غیر معمولی مثال‘‘ قرار دیا۔

اپنے حکم میں جج جیمز پال اوٹکن نے نشریات کی بحالی کا براہ راست حکم نہیں دیا لیکن انہوں نے واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو 1,200 سے زائد صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا، جنہیں رواں ماہ اچانک معطل کر دیا گیا تھا۔

اوٹکن کے حکم کے مطابقامریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کو ملازمین یا کانٹریکٹرز کو برطرف کرنے، جبری رخصت پر بھیجنے یا معطل کرنے کی کسی بھی کوشش سے روک دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیاط دراصل وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ اور سرکاری فنڈز سے چلنے والے دیگر میڈیا اداروں کی نگرانی کرتا ہے۔

یہ حکم ایجنسی کو کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا بیرون ملک تعینات ملازمین کو امریکہ واپس آنے کی ہدایت دینے سے بھی روکتا ہے۔

یہ مقدمہ وائس آف امریکہ کے ملازمین، ان کی یونینز اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے دائر کیا تھا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ بندش کارکنوں کے پہلے آئینی ترمیمی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے آئین کی اولین ترمیم حقِ آزادیء اظہار کی ضمانت یقینی بناتی ہے۔ مدعیان کی طرف سے عدالتی حکم کا خیرمقدم

مدعیان کے وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا، ''یہ آزادی صحافت اور پہلے ترمیمی حقوق کے لیے ایک فیصلہ کن فتح اور ٹرمپ انتظامیہ کی جمہوری اصولوں کو نظر انداز کرنے پر ایک سخت سرزنش ہے‘‘۔

اسی طرح رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز امریکہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کلیٹن ویمرز نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا، '' ہمیں بہت خوشی ہے کہ عدالت نے حکومت کی جانب سے وائس آف امریکہ کو بند کرنے کی کسی بھی مزید کوشش کو روکنے پر اتفاق کیا۔‘‘

ویمرز نے مزید کہا، ''ہم ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر وائس آف امریکہ کے فنڈز بحال کرے اور اس کے ملازمین کو بغیر کسی تاخیر کے بحال کرے‘‘۔

ادارت: عاطف توقیر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ کے

پڑھیں:

گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟

اس سال اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی تنظیمی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

لیکن اس تیزی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور کئی کمپنیوں نے اپنے وسائل اے آئی پر مرکوز کرنے کے لیے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔

گوگل بھی اپنے اے آئی منصوبوں، خصوصاً جیمنی اور اے آئی اوورویوز کو بہتر بنانے میں مصروف ہے، مگر دیگر بڑی کمپنیوں کے برعکس اس نے حال ہی میں ایک مختلف سمت اختیار کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل کے جیمینی ’نینو بنانا ایپ‘ نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی

اطلاعات کے مطابق، گوگل نے محنت کشوں کے حقوق اور خراب کام کرنے کے حالات پر بڑھتے تنازع کے بیچ سینکڑوں اے آئی ورکرز کو برطرف کر دیا۔

امریکی جریدے وائرڈ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگست میں 200 سے زائد کنٹریکٹرز کو اچانک نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

یہ ورکرز مختلف آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کے ذریعے بھرتی کیے گئے تھے اور گوگل کے اے آئی منصوبوں میں بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: گوگل جیمنی پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب، یہ کام کیسے ہوا؟

ان کی ذمہ داریوں میں اے آئی کے جوابات کا تجزیہ کرنا، انہیں دوبارہ لکھنا، درجہ بندی کرنا اور سسٹم کو درست اور ہموار رکھنے کے لیے فیڈ بیک دینا شامل تھا۔

اہم کردار ادا کرنے کے باوجود ان میں سے بیشتر کو کم معاوضہ اور خراب کام کرنے کے حالات کا سامنا تھا، مثال کے طور پر، گلوبل لاجک کے ذریعے بھرتی ہونے والے ’سپر ریٹرز‘ کو فی گھنٹہ 28 سے 32 ڈالر دیے جاتے تھے۔

جبکہ اسی نوعیت کا کام کرنے والے دوسرے کنٹریکٹرز کو صرف 18 سے 22 ڈالر فی گھنٹہ ملتے تھے، ان میں سے کئی ملازمین نے شکایت کی کہ انہیں نہ تو ملازمت کی کوئی ضمانت تھی اور نہ ہی بنیادی سہولتیں میسر تھیں۔

مزید پڑھیں: ’گوگل اے آئی خلاصہ گلے پڑگیا‘، آن لائن ٹریفک متاثر ہونے پر ببلشرز کا احتجاج

صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب ورکرز نے خراب حالات کے خلاف آواز بلند کی اور یونین سازی پر غور شروع کیا۔ تاہم، گوگل نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور سوشل میڈیا پر حالاتِ کار پر بات کرنے والے ملازمین کو وارننگ دی۔

جلد ہی اچانک برطرفیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، بعض ملازمین کو بتایا گیا کہ یہ فیصلے ’پروجیکٹ کم کرنے‘ کی وجہ سے کیے گئے ہیں، جبکہ ٹیم کے کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں غیر حقیقی اہداف دیے جا رہے تھے جو دباؤ میں اضافے کا باعث بنے۔

گوگل کا موقف ہے کہ یومیہ ورکنگ کنڈیشنز کی نگرانی اس کے کنٹریکٹرز اور سب کنٹریکٹرز کی ذمہ داری ہے، تاہم متاثرہ ملازمین کا کہنا ہے کہ پالیسیوں نے انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا۔

یہ برطرفیاں اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ اے آئی کی صنعت اب بھی انسانی محنت پر انحصار کرتی ہے، مگر اس محنت کو اکثر وہ قدر نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آرٹیفیشل انٹیلیجنس اے آئی ٹیکنالوجی گوگل

متعلقہ مضامین

  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط
  • سرکاری ملازمین کے لیے اچھی خبر;تعلیم کیلیے خصوصی فنڈ فراہم کرنے کا فیصلہ