اپوزیشن کا عید کے بعد احتجاج غیر یقینی کا شکار، جماعت اسلامی نے معذرت کرلی
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
اپوزیشن کا عید کے بعد احتجاج غیر یقینی کا شکار، جماعت اسلامی نے معذرت کرلی WhatsAppFacebookTwitter 0 29 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)اپوزیشن الائنس کی جانب سے عید کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے کا معاملہ تاحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ذرائع کے مطابق الائنس اب تک اپنے بنیادی تنظیمی ڈھانچے کو مکمل نہیں کر سکا اور مختلف تجاویز پر غور جاری ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ الائنس کے تنظیمی ڈھانچے کی تکمیل نہ ہونے کے باعث عید کے بعد احتجاجی تحریک کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ دوسری جانب، جماعت اسلامی نے اپوزیشن الائنس میں باضابطہ شمولیت سے معذرت کر لی ہے اور وہ علیحدہ احتجاجی تحریک چلانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ذرائع کے مطابق، اپوزیشن الائنس نے جماعت اسلامی کو اسلام آباد میں مشترکہ احتجاج کی تجویز دی تھی، جبکہ جماعت اسلامی کو راولپنڈی میں احتجاج کرنے کی تجویز دی گئی، تاہم جماعت اسلامی نے اس حوالے سے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے چیئرمین محمود خان اچکزئی ہوں گے، جبکہ صدر کا عہدہ جمیعت علمائے اسلام کو دیا جائے گا۔ اتحاد میں شامل ہر جماعت کا ایک نمائندہ بطور نائب صدر کام کرے گا۔ انفارمیشن سیکرٹری یا ترجمان کے لیے مصطفی نواز کھوکھر کا نام زیر غور ہے، جبکہ جنرل سیکرٹری کا عہدہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ حامد رضا کو دیے جانے کا امکان ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عید کے بعد احتجاج جماعت اسلامی نے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔