حشد الشعبی امریکی نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عوامی مقبولیت، تنظیم کی قانونی حیثیت اور حکومت و کابینہ میں مزاحمت کی حامی سیاسی قوتوں کی موجودگی میں عراقی پارلیمنٹ میں حشد الشعبی مخالف فیصلے کی توقع بہت کم نظر آتی ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ حشد الشعبی کو عراق کی اعلیٰ مرجعیت کے فتوے کی بنیاد پر دہشتگردی کیخلاف جنگ کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ جب تک اسے دینی مرجعیت کی مضبوط حمایت حاصل ہے، امریکہ اور عراق کے دشمنوں کی حشد الشعبی کو ختم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی اور عراق کی مرجعیت عراق کی سلامتی اور استحکام کیلئے اپنی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
آجکل ایرانی حکومت کے نام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط اور ایران کی طرف سے اس کے مبینہ جواب کی خبریں علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کا موضوع ہیں۔ اس خط کے ردعمل میں عراق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے امریکی صدر کی بعض شرائط اور مطالبات کے بارے میں انکشاف کیا ہے، جس میں حشد الشعبی کے خاتمے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس تجزیئے میں امریکہ کے اس مطالبہ کی وجوہات، عراق اور خطے میں امریکی پروگراموں کو ناکام بنانے میں حشد الشعبی کے کردار اور اس کے خاتمے کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ عراق میں امریکی پروگراموں کو ناکام بنانے میں حشد الشعبی کا کردار
امریکہ کی طرف سے عراق کے سیاسی اور عسکری ڈھانچے میں حشد الشعبی جیسی قوتوں کو ختم کرنے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ عراقی معاشرے میں ان قوتوں کا وجود کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ عوامی جڑیں رکھنے والی اس عوامی تنظیم کی ایک دیرینہ تاریخ ہے، جس نے مزاحمت کے بلاک کا حصہ بن کر عراق اور خطے میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران امریکہ کے مذموم پروگراموں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں وائٹ ہاؤس کی تمام کوششیں اس دھڑے کو کمزور کرنے بلکہ ختم کرنے میں صرف ہوئی ہیں۔ فوجی حملوں سے لے کر معاشی پابندیوں، داخلی فتنے اور میڈیا پروپیگنڈے تک امریکہ نے حشد الشعبی کے خلاف ہر طرح کا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہيں کہ دہشت گرد گروہ داعش کے قیام جیسی بڑی سازش کے خلاف عراق میں قومی ہم آہنگی کے نتیجے میں حشد الشعبی نے بنیادی کردار ادا کیا اور دہشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی نیز عراق میں عدم استحکام پیدا کرنے کے امریکی منصوبے کو بھی ناکامی سے دوچار کیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران عراق میں امریکی فوجی اڈے کا خفیہ دورہ کیا۔ اس دورے کے تلخ تجربات پر امریکی صدر چیخ اٹھا کہ سات کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اسے چھپ کر رات کی تاریکی میں عراق آنا پڑا۔ امریکہ نے ابتدائی طور پر عراق اور شام میں داعش کے عروج کو اپنی فوجی موجودگی کا جواز پیش کرنے کے لئے استعمال کیا، لیکن حشد الشعبی نے جب داعش کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا تو امریکہ کا شیطانی منصوبہ خطرے میں پڑگیا۔
حشد الشعبی کی دفاعی اور سکیورٹی مضبوطی نے عراق میں امریکی اور نیٹو کی قابض موجودگی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے بل اور عوامی رائے کے مطالبات میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے مطالبات میں اضافہ ہوا۔ یہ معاملہ خاص طور پر آپریشن طوفان الاقصیٰ اور غزہ پر صیہونی فوج کے حملے اور اس حکومت کے جرائم کے خلاف امریکی فوج کی مکمل حمایت کے بعد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا۔ امریکی افواج نے خطے میں عملی طور پر مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر دیا اور یوں اس رویئے کے خلاف عراق میں حشد الشعبی اور امریکیوں کے مابین فوجی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ غیر قانونی امریکی کارروائیوں کے بعد، حشد الشعبی سے منسلک گروہوں نے عراق میں امریکی اڈوں پر بار بار حملے کیے۔ ٹرمپ نے ان حملوں کو خطے میں امریکی فوجی موجودگی کے لیے خطرہ قرار دیا اور حشد الشعبی کے خاتمے کو اس خطرے کو کم کرنے کا ایک طریقہ قرار دیا۔
اس کے علاوہ امریکہ نے خطے میں صیہونی حکومت کی سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانے بلکہ بحال کرنے کے لیے عراق میں نئے سرے سے منصوبہ بندی شروع کی۔ بہرحال امریکہ اس وقت عراق کی سیاسی مساوات کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ عراقی حکومت مغرب پر زیادہ انحصار کرے اور آزاد منش اداروں (جیسے حشد الشعبی) کو مضبوط ہونے سے روکے۔ گذشتہ تین مہینوں میں امریکہ اور صیہونی حکومت نے ترکیہ اور مسلح دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل کر شام میں نیا کھیل شروع کیا ہے۔سیاسی اور سکیورٹی کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور فلسطین کی حمایت کا ایک اہم قلعہ شام اس وقت تحریر الشام کے ہاتھوں میں آگیا ہے اور یقینی طور پر عراق بھی اسی طرح کی تباہی کا شکار ہوسکتا ہے، یعنی عراق بھی دہشت گردوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کے دہشت گردوں کے سلیپنگ سیل کی تعمیر نو کے خدشات نے عراقیوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر پیدا کر دی ہے۔
ان حالات میں، یہ بات بالکل واضح ہے کہ حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کی کوشش امریکی ترجیحات میں شامل ہے، جس کا بنیادی مقصد عراق کی فوجی اور دفاعی طاقت کو کمزور کرنا اور اس ملک کا امریکہ پر فوجی انحصار بڑھانا ہے۔ اگر حشد الشعبی کو ختم کر دیا جائے تو مغرب نواز تحریکوں کو عراق کے سیاسی ڈھانچے میں مزید طاقت ملے گی۔ حشد الشعبی اور اس کے سیاسی اتحادیوں (جیسے کہ فریم ورک آف کوآرڈینیشن اتحاد) کی عراقی پارلیمان میں موجودگی مغرب نواز دھڑے کے مکمل غلبے کے خلاف ایک طاقتور دیوار ہے۔ حشد الشعبی کو ختم کرنے کا مطلب امریکہ اور سعودی عرب سے وابستہ گروہوں کے لئے ایک اہم سیاسی حریف کو ختم کرنا ہے۔
2۔ عراق اور خطے میں مزاحمت کے بلاک کو کمزور کرنا
افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے بعد سے، مغربی ایشیا کے سکیورٹی اور سیاسی توازن میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونماء ہوئیں، اس تناظر میں ایران اور امریکہ کے مابین مزاحمت کے بلاک کو لیکر ایک فیصلہ کن معرکہ شروع ہوچکا ہے۔ حشد الشعبی خاص طور پر 2014ء میں (داعش کے ظہور کے جواب میں) باضابطہ طور پر خطے میں مقاومتی بلاک کے اہم عناصر میں سے ایک بن گئی ہے۔ لہذا حشد الشعبی کو ختم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مزاحمت کے بلاک کو کمزور کیا جائے اور خطے میں ایران کی اسٹریٹجک گہرائی کو کم کیا جائے۔ دریں اثناء، یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹرمپ مبینہ طور پر ایران سے اسٹریٹجک فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے لیے وہ حشد الشعبی کے خاتمے کو مذاکرات کی شرط قرار دے رہا ہے۔ اگرچہ حشد کے بہت سے ذیلی گروپ (جیسے کہ حزب اللہ عراق، عصائب اہل الحق، تحریک النجباء) ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں، البتہ ایرانی اور عراقی حکام نے بار بار اعلان کیا ہے کہ یہ تعلقات دونوں ممالک کے مابین سرکاری سیاسی، فوجی اور سکیورٹی تعلقات کے فریم ورک اور قواعد و ضوابط کے تحت ہیں۔
کیا امریکہ حشد الشعبی کو ختم کرسکتا ہے؟
حشد الشعبی کو مکمل طور پر ختم کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ ادارہ عراق کی سیاسی اور سکیورٹی ڈھانچے میں جڑیں رکھتا ہے اور اس کی ایک وسیع عوامی بنیاد ہے۔ سابق عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے دور حکومت میں حشد الشعبی کو وزیراعظم کی قیادت میں مسلح افواج کے سرکاری ڈھانچے کے حصے کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا اور قانونی طور پر اس تنظیم کے خاتمے کے لئے پارلیمنٹ کی رضامندی کے ساتھ وزیراعظم کے حکم کی ضرورت بھی ہوگی۔ عوامی مقبولیت، تنظیم کی قانونی حیثیت اور حکومت و کابینہ میں مزاحمت کی حامی سیاسی قوتوں کی موجودگی میں عراقی پارلیمنٹ میں حشد الشعبی مخالف فیصلے کی توقع بہت کم نظر آتی ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ حشد الشعبی کو عراق کی اعلیٰ مرجعیت کے فتوے کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ جب تک اسے دینی مرجعیت کی مضبوط حمایت حاصل ہے امریکہ اور عراق کے دشمنوں کی حشد الشعبی کو ختم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی اور عراق کی مرجعیت عراق کی سلامتی اور استحکام کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حشد الشعبی کو ختم کرنے حشد الشعبی کو ختم کر کہ حشد الشعبی کو عراق میں امریکی مزاحمت کے بلاک میں حشد الشعبی حشد الشعبی کے کرنے کی کوشش اور سکیورٹی اور خطے میں امریکہ اور کو کمزور اور عراق عراق اور کے خاتمے عراق کے داعش کے عراق کی کرنے کے کے خلاف کیا ہے اور اس کے لئے کے لیے
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!