محض 12 سال کی عمر میں موٹیویشنل اسپیکر، ٹرینر اور لکھاری بچہ کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
سپر کڈ سے مشہور ہونے والے خیبر پختونخوا کے کم عمر ترین صحافی کا ایک اور اعزاز، 12 سال کی عمر میں اپنی زندگی پر کتاب لکھ ڈالی۔
صوبہ خیبر پختونخوا پشاور سے تعلق رکھنے والے 12 سالہ محمد حسنین قابلیت اور ذہانت میں کسی دانشور سے کم نہیں یہی وجہ ہے کہ کم عمری میں اپنی زبردست صلاحیتوں سے سب کو حیران کردیا ہے۔
محمد حسنین نے محض 6 سال کی عمر میں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے ریڈیو سے پروگرام شروع کیا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ اس کی صلاحیت سے متعلق مزید جاننے کے لیے یہ ویڈیو دیکھیے
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
اب کوئی نوگو ایریا نہیں رہا، پولیو ٹیمیں ہر بچے تک پہنچ رہی ہیں: سیکریٹری صحت خیبر پختونخوا
خیبر پختونخوا کے سیکریٹری ہیلتھ شاہداللّٰہ نے بتایا ہے کہ صوبے میں اب کوئی نوگو ایریا نہیں رہا، انسداد پولیو مہم ٹیمیں ہر بچے تک پہنچ رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سیکریٹری ہیلتھ شاہداللّٰہ نے بتایا ہے کہ اپرجنوبی وزیرستان میں 4 سال بعد گھر گھر جاکر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ اپر جنوبی وزیرستان میں 22 ہزار767 بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف تھا۔
خیبر پختون خوا میں رواں سال کی پہلی انسدادِ پولیو مہم کا آغاز آج سے ہو گیا۔
سیکریٹری صحت نے کہا کہ کرم میں ایک سال بعد ایک لاکھ 24 ہزار بچوں کو قطرے پلائے گئے اسی طرح بنوں کے دور دراز علاقوں میں 2 سال بعد 2 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو قطرے پلائے گئے۔
شاہداللّٰہ نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں ایک سال سے پولیو مہم نہیں کی جاسکی تھی، اس بار شمالی وزیرستان میں 90 فیصد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔
سیکریٹری صحت نے مزید بتایا ہے کہ لکی مروت میں انسداد پولیو مہم کا بائیکاٹ ختم کروا دیا گیا۔
انہوں نے بتایا ہے کہ پہلی بار پولیو مہم میں عدم دستیاب بچوں کا ڈیٹا بھی شامل کیا جا رہا ہے، صوبے میں باضابطہ ضروری پر فارمنس کے انڈیکیٹرز متعین کیے گئے ہیں اور 60 فیصد سے کم اسکور پر عملے کے خلاف کارروائی کی جائے گی، کارکردگی نہ ہونے پر عملے کو فارغ کیا جائے گا۔
سیکریٹری صحت کے پی کے نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت کے احکامات ہیں، جرگہ سسٹم، علماءکے تعاون، مشران اور سیاسی و مقامی نمائندوں کے ذریعے اب ہر بچے تک رسائی کی جارہی ہے۔