ماحولیاتی تحفظ کے معائنہ و نگرانی اور دیگر سرکاری اداروں کے معائنہ پر سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
ماحولیاتی تحفظ کے معائنہ و نگرانی اور دیگر سرکاری اداروں کے معائنہ پر سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس WhatsAppFacebookTwitter 0 31 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کا ایک اجلاس منعقد ہوا ، جس میں “ماحولیاتی تحفظ کے معائنہ و نگرانی کے ضوابط” اور “بیسویں مرکزی کمیٹی کے چوتھے راؤنڈ کے معائنہ کی جامع رپورٹ” کا جائزہ لیا گیا۔
سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پھنگ نے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ماحولیاتی تحفظ کا معائنہ ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کا ایک اہم اقدام ہے، جس میں مختلف سطح کے قائدین کی ماحولیاتی تحفظ کی سیاسی ذمہ داری کو مضبوط کیا گیا، ماحول کو تباہ کرنے والے کئی اہم واقعات کی تحقیقات کی گئیں اور عوام کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر ماحولیاتی مسائل کو حل کیا گیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خوبصورت چین کی تعمیر کے لیے تمام علاقوں اور محکموں کی سیاسی ذمہ داری کو مزید مضبوط کیا جائے۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ مرکزی معائنہ گروپ نے کچھ مرکزی و ریاستی اداروں کا معائنہ کیا اور کچھ خامیاں دریافت کی ہیں، جنہیں سنجیدگی کے ساتھ درست کرنا ہے۔اس کے علاوہ پارٹی اور انتظامیہ کی سیاسی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اعلیٰ معیارات اور سخت تقاضوں پر عمل کرنا ہوگا، نظم و ضبط پر عمل درآمد بہتر بنانا ہوگا، بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، اور ایک شفاف سیاسی ماحول تشکیل دینا ہوگا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سی پی سی کی مرکزی کمیٹی ماحولیاتی تحفظ کے معائنہ
پڑھیں:
زمین کا انتباہ ؛ 2025ء میں بدلتا ہوا موسم اور ہماری ذمے داریاں
زمین کی کوکھ سے اُٹھنے والی کراہیں، برفانی چوٹیاں جو تیزی سے پگھل رہی ہیں، جنگلات کی آگ جو انسان کے گناہوں کا دھواں آسمان تک پہنچا رہی ہے، اور سمندر جو اپنی حدیں پار کر رہے ہیں یہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مستقبل کا اندیشہ نہیں بلکہ موجودہ عہد کا سنگین بحران بن چکا ہے۔
2025 میں دنیا ایک نئے اور خطرناک دور میں داخل ہوچکی ہے، جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں نے صرف تحقیقاتی مقالوں یا ماحولیاتی کانفرنسوں کا موضوع بننے کے بجائے انسانی بقا کے بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس سال کے پہلے چھے ماہ میں دنیا بھر میں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے، جو اقوام متحدہ کی بین الحکومتی رپورٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کے خطرناک حد سمجھے جانے والے ہدف کو چھو رہا ہے۔
یورپ، امریکا، بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی خطے اس سال 50 سے 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی شدید گرمی کی لپیٹ میں آئے۔ صرف بھارت میں مئی 2025 کے دوران ہیٹ ویو کے باعث 1,200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کینیڈا اور یونان کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ایکڑ زمین کو راکھ میں بدل دیا، جب کہ امریکا کی کیلیفورنیا ریاست میں 2025 کی گرمی کے موسم کو تاریخ کا سب سے خشک اور گرم قرار دیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے بڑا بوجھ ترقی پذیر ممالک اٹھا رہے ہیں، جو عالمی آلودگی میں کم حصہ رکھنے کے باوجود شدید متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان کی مثال اس کی زندہ دلیل ہے۔ ہم دنیا کی کل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 0.8 فی صد کے شریک ہیں، مگر ماحولیاتی آفات سے متاثرہ اولین دس ممالک میں شامل ہیں۔ جرمن واچ (Germanwatch) کی گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ دہائی میں 150 سے زائد ماحولیاتی سانحات کا سامنا کر چکا ہے۔
سال 2025 کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان کے جنوبی علاقے، خصوصاً سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان، شدید گرمی اور خشک سالی کا شکار رہے۔ دریائے سندھ اور چناب کی سطح آب میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔ تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں میں پانی کی سطح نازک حد تک نیچے جاچکی ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے بلکہ شہروں کو بھی پانی اور بجلی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
زرعی شعبہ، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کپاس، گندم، چاول اور گنے جیسی بنیادی فصلیں یا تو وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھپھوندی، گرمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ماحولیاتی بحران صرف درجہ حرارت یا پانی کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ صحت عامہ پر بھی اس کے تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہیٹ اسٹروک، ملیریا، ڈینگی اور سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، خصوصاً شہری علاقوں میں جہاں درختوں کی کمی، ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی اور آبادی کا دباؤ ان مسائل کو مزید گھمبیر بناتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں ہر سال 70 لاکھ افراد صرف آلودہ ہوا کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، جن میں بڑی تعداد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے۔
حکومتی سطح پر کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے گئے ہیں۔ ’’ٹین بلین ٹری سونامی منصوبہ‘‘، کلین اینڈ گرین پاکستان مہم، اور الیکٹرک وہیکلز پالیسی جیسے پروگرامز ماحول دوست وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ حال ہی میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں الیکٹرک بسیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو گرین ٹرانسپورٹ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ وفاقی حکومت نے ’’کلائمیٹ ایکشن بل 2025 ‘‘ پر بحث کا آغاز بھی کیا ہے، جس میں کاربن ایمیشن کی حد بندی، صنعتی آلودگی پر سخت ضوابط، اور گرین انرجی کے فروغ جیسے نکات شامل ہیں۔
تاہم ان منصوبوں پر عمل درآمد میں سنجیدگی، رفتار اور شفافیت کا فقدان ہے۔ بہت سے منصوبے صرف کاغذوں تک محدود ہیں یا ان پر عمل اتنا سست ہے کہ نتائج حاصل ہونے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال، صنعتی فضلہ، اور شہری فضائی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کئی بڑے شہر، خصوصاً لاہور، سال کے بیشتر حصے میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔
عوامی شعور کی کمی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ عام شہری نہ تو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، اور نہ ہی اپنی روزمرہ زندگی میں ماحول دوست عادات اپنانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تعلیم کو ابھی تک سنجیدگی سے شامل نہیں کیا گیا، اور میڈیا پر بھی اس حوالے سے مسلسل آگاہی کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
مگر تمام تر مایوسی کے باوجود، امید کے کچھ دیے اب بھی روشن ہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کے درمیان ماحولیاتی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ مختلف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں ’’گرین کلب‘‘ قائم کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ماحول دوست مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور نجی ادارے کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی، جیسے سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز، کی تنصیب میں اضافہ ہورہا ہے، اور ماحول دوست طرزِزندگی کو فروغ دینے کے رجحان میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔
مگر یہ سب کچھ اُس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم بحیثیت قوم اس مسئلے کو اپنی اجتماعی ذمے داری تسلیم نہ کریں۔ جب تک شہری بجلی، پانی، پلاسٹک اور قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط نہیں کریں گے، جب تک تعلیمی ادارے ماحول دوست نسل تیار نہیں کریں گے اور جب تک حکمران طبقہ محض اعلانات کی بجائے عمل کو ترجیح نہیں دے گا، اُس وقت تک کلائمٹ چینج صرف رپورٹوں کا موضوع رہے گا، حل کا نہیں۔
اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کو صرف ’’چیلینج‘‘ نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی قومی، اخلاقی اور انسانی ذمے داری مانتے ہوئے فوری، دیرپا اور جامع اقدامات کریں۔ ورنہ یہ زمین، جو کبھی ہمارے خوابوں کی جنت تھی، کل ہماری غفلت کی دوزخ بن جائے گی۔