Islam Times:
2025-11-03@18:08:46 GMT

غزہ، لبنان و یمن والوں کی عید

اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT

غزہ، لبنان و یمن والوں کی عید

اسلام ٹائمز: آپ ضرور عید منائیں، آپکو کسی نے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن مظلوموں کے درد کو یاد رکھیئے، بائیکاٹ جاری رکھیں، فلسطینی عوام کیلئے جو ممکن ہو، انکی مدد کریں۔ ایسے حالات میں کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے درد پر خاموش تماشائی بنا رہے، فلسطینیوں کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئیں اس عید پر ہم اپنے غزہ، لبنان اور یمن کے مظلوم بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں اور پھر انکے درد کا مداوا کرنے کیلئے عملی اقدامات انجام دیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

سب سے پہلے تو میں آپ سب کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ فلسطین و لبنان اور یمن کے لوگوں کو کیسے عید مبارک باد کہوں۔؟ جب فلسطین کی طرف دیکھتا ہوں تو غزہ ایک مرتبہ پھر جل رہا ہے، ملبہ کے ڈھیر پر موجود خیموں میں بسنے والے بے یار و مدد گار لوگ امریکی و اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غزہ کے بچے یتیم ہیں، ہر طرف ایک اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ میں کس طرح ان فلسطین اور غزہ والوں کو عید مبارک کہہ دوں۔؟ جن کے پیارے گذشتہ دنوں میں موت کی نیند سو چکے ہیں۔ جن پر امریکی و اسرائیلی دشمن نے جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ میں کس طرح غزہ والوں کو عید مبارک کہوں کہ غزہ کے میرے بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے بلک رہے ہیں۔ ہاں امت اسلام کے لوگوں کو میں مبارکباد دیتا ہوں کہ جنہوں نے روزہ بھی رکھا، نمازیں بھی انجام دیں، فطرہ و زکواۃ بھی ادا کی ہے۔

تراویح بھی انجام دی، ختم قرآن بھی کیا اور نہ جانے اعتکاف کے ساتھ ساتھ ڈھیروں عبادات کو سمیٹا ہے۔ پھر عید کی نمازیں پڑھنے کے بعد جوش و خروش سے اپنے پیاروں کے سینہ سے لگ کر عید کی مبارک بادیں دے رہے ہیں۔ لیکن میرا یہاں پر ان سب سے ایک سوال ہے کہ مجھے بتائیں کہ آپ کی یہ ساری عبادت اور سب کچھ کس کام کا ہے۔ اگر آپ کے بھائی اور بچے غزہ میں بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، یہ سب کچھ کس کام کا ہے کہ جب غزہ میں جارحیت ہے اور ہم ظلم پر خاموش ہیں۔ ایسی نماز اور روزہ کا کیا فائدہ ہوا کہ ہم فلسطین کے لوگوں کو نجات دلوانے میں کامیاب نہ ہوئے۔؟ یہ سوچئے گا ضرور اور مجھے بھی بتائیے گا۔

فلسطین و غزہ کے بعد جب لبنان کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یہاں بھی دس ہزار سے زائد شہداء اور ان کے لواحقین نظر آرہے ہیں۔ میں کس طرح اپنے لبنان کے بھائیوں کو عید کی مبارک باد دے دوں کہ جن کے گھروں کو اسرائیلی اور امریکی جنگی جہازوں نے بمباری کے ذریعے منہدم کر رکھا ہے۔ جن پر روزانہ معمول سے بمباری کی جا رہی ہے، جبکہ گھر ملبہ کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ بیروت شہر جو روشنیوں اور خوشیوں کا شہر تھا، آج کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے تو میں ایسے حالات میں کس طرح لبنان والوں کو عید مبارک کہہ سکتا ہوں۔؟ پھر سب سے بڑھ کر لبنان میں بسنے والی ایک عظیم شخصیت سید حسن نصراللہ اور ان کے دنیا بھر میں کروڑوں چاہنے والوں کو کس طرح عید مبارک کہہ دوں۔؟

میں دنیا کے سب لوگوں کو عید مبارک کہہ رہا ہوں، لیکن فلسطین و غزہ اور لبنان والوں کو کس منہ سے عید مبارک کہہ دوں؟ جبکہ ہم نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ہم ان کی مدد کرسکتے تھے، لیکن نہیں کی تو اب عید مبارک کس طرح کہہ سکتے ہیں۔؟ عید مبارک تو وہ لوگ کہہ سکتے ہیں، جنہوں نے عملی طور پر غزہ و لبنان والوں کے لئے مدد کی ہے اور ان کے لئے آواز بلند کی ہے۔ اگر ہمارا شمار ایسے لوگوں میں سے ہے کہ صرف ہم نماز و روزہ میں مشغول رہے اور عبادات میں مصروف عمل رہے اور اپنے غزہ و لبنان کے بھائیوں کو فراموش کیا تو اب ہمیں یہ حق بھی نہیں ہے کہ ہم ان کو عید مبارک کہہ سکیں۔

عید ضرور منائیں، لیکن فلسطین و غزہ اور لبنان و یمن کے مظلوم عوام کو یاد رکھیں کہ جو پوری انسانیت اور امت مسلمہ کے تحفظ اور عزت و آبرو کی جنگ لڑ رہے ہیں اور میدان میں قربانیاں دیتے ہوئے اعلان کر رہے ہیں کہ ذلت کے راستے کو قبول نہیں کریں گے۔ یمن و لبنان کے لوگ امریکی اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، کیونکہ وہ عہد کرچکے ہیں کہ غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیا ہم نے ایسا کوئی عہد کیا ہے۔؟ کیا ہم نے ایسا کوئی کام کیا ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔؟ ہمیں سوچنا ہوگا اور آج ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ وقت کافی بیت چکا ہے، لیکن دیر اب بھی نہیں ہوئی ہے۔ دیر آئے درست آئے کی بنیاد پر ہمیں آج بھی فیصلہ کر لینا چاہیئے اور یمن و لبنان والوں کی طرح غزہ کی حمایت سے کسی بھی صورت دستبردار نہ ہونے کا عزم مصمم کرنا چاہیئے۔

آج ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھ رہے تو یقین رکھیئے کل قیامت کے دن ہمیں پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ آج وقت ہم سے تقاضہ کر رہا ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ خاموش تماشائیوں کی صف سے نکل کر میدان والوں کی صف میں آئیں۔ یہ کسیے ہوسکتا ہے کہ مسلم امہ ایک جسد واحد کی طرح ہو اور پھر اس جسد واحد کے ایک حصہ فلسطین سے خون رس رہا ہو اور جسد واحد درد بھی محسوس نہ کرے، نہیں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ مجھے ایک فلسطینی کے یہ جملے شدید کرب میں مبتلا کر رہے ہیں کہ اس نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ "عید مبارک" کہہ سکتے ہیں اور اکٹھے ہو کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، لیکن آخر کون سی عید۔؟ فلسطینی لڑکی کہتی ہے کہ "کوئی رمضان نہیں، کوئی عید نہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں کچھ بھی تو معمول پر نہیں۔ ہم صرف بیٹھ کر غزہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔"

خلاصہ یہ ہے کہ آپ ضرور عید منائیں، آپ کو کسی نے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن مظلوموں کے درد کو یاد رکھیئے، بائیکاٹ جاری رکھیں، فلسطینی عوام کے لئے جو ممکن ہو، ان کی مدد کریں۔ ایسے حالات میں کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے درد پر خاموش تماشائی بنا رہے، فلسطینیوں کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئیں اس عید پر ہم اپنے غزہ، لبنان اور یمن کے مظلوم بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں اور پھر ان کے درد کا مداوا کرنے کے لئے عملی اقدامات انجام دیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو عید مبارک کہہ لبنان والوں سکتے ہیں نہیں کی اور یمن رہے ہیں یمن کے کے درد کیا ہے غزہ کے کے لئے عید کی ہے اور

پڑھیں:

جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیروت: اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ میں ڈرون حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا، جسے لبنانی حکام نے نومبر 2024 کی جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی رات دوحا۔کفرمان روڈ پر اس وقت کیا گیا جب ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ اسرائیلی ڈرون نے براہِ راست گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو شہری بھی زخمی ہوئے جبکہ اطراف کی متعدد رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ علاقہ دوحا زیادہ تر رہائشی آبادی پر مشتمل ہے، جہاں اچانک حملے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ بنائی گئی گاڑی میں حزب اللہ کے افسران سوار تھے۔

تاہم لبنان یا حزب اللہ کی جانب سے اس دعوے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ اگست میں لبنانی حکومت نے ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں تمام اسلحہ صرف ریاستی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، حزب اللہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان کے پانچ زیرِ قبضہ سرحدی علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔

جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، تاہم اسرائیل نے صرف جزوی طور پر انخلا کیا اور اب بھی پانچ سرحدی چوکیوں پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • وزیر اعظم کی اسلام آباد بار، پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں انڈیپینڈنٹ گروپ کی برتری پر مبارک باد
  • کراچی گندہ نہیں اسے گندہ کہنے والوں کی سوچ گندی ہے، جویریہ سعود
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ