Islam Times:
2025-04-26@03:30:19 GMT

غزہ، لبنان و یمن والوں کی عید

اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT

غزہ، لبنان و یمن والوں کی عید

اسلام ٹائمز: آپ ضرور عید منائیں، آپکو کسی نے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن مظلوموں کے درد کو یاد رکھیئے، بائیکاٹ جاری رکھیں، فلسطینی عوام کیلئے جو ممکن ہو، انکی مدد کریں۔ ایسے حالات میں کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے درد پر خاموش تماشائی بنا رہے، فلسطینیوں کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئیں اس عید پر ہم اپنے غزہ، لبنان اور یمن کے مظلوم بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں اور پھر انکے درد کا مداوا کرنے کیلئے عملی اقدامات انجام دیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

سب سے پہلے تو میں آپ سب کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ فلسطین و لبنان اور یمن کے لوگوں کو کیسے عید مبارک باد کہوں۔؟ جب فلسطین کی طرف دیکھتا ہوں تو غزہ ایک مرتبہ پھر جل رہا ہے، ملبہ کے ڈھیر پر موجود خیموں میں بسنے والے بے یار و مدد گار لوگ امریکی و اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غزہ کے بچے یتیم ہیں، ہر طرف ایک اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ میں کس طرح ان فلسطین اور غزہ والوں کو عید مبارک کہہ دوں۔؟ جن کے پیارے گذشتہ دنوں میں موت کی نیند سو چکے ہیں۔ جن پر امریکی و اسرائیلی دشمن نے جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ میں کس طرح غزہ والوں کو عید مبارک کہوں کہ غزہ کے میرے بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے بلک رہے ہیں۔ ہاں امت اسلام کے لوگوں کو میں مبارکباد دیتا ہوں کہ جنہوں نے روزہ بھی رکھا، نمازیں بھی انجام دیں، فطرہ و زکواۃ بھی ادا کی ہے۔

تراویح بھی انجام دی، ختم قرآن بھی کیا اور نہ جانے اعتکاف کے ساتھ ساتھ ڈھیروں عبادات کو سمیٹا ہے۔ پھر عید کی نمازیں پڑھنے کے بعد جوش و خروش سے اپنے پیاروں کے سینہ سے لگ کر عید کی مبارک بادیں دے رہے ہیں۔ لیکن میرا یہاں پر ان سب سے ایک سوال ہے کہ مجھے بتائیں کہ آپ کی یہ ساری عبادت اور سب کچھ کس کام کا ہے۔ اگر آپ کے بھائی اور بچے غزہ میں بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، یہ سب کچھ کس کام کا ہے کہ جب غزہ میں جارحیت ہے اور ہم ظلم پر خاموش ہیں۔ ایسی نماز اور روزہ کا کیا فائدہ ہوا کہ ہم فلسطین کے لوگوں کو نجات دلوانے میں کامیاب نہ ہوئے۔؟ یہ سوچئے گا ضرور اور مجھے بھی بتائیے گا۔

فلسطین و غزہ کے بعد جب لبنان کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یہاں بھی دس ہزار سے زائد شہداء اور ان کے لواحقین نظر آرہے ہیں۔ میں کس طرح اپنے لبنان کے بھائیوں کو عید کی مبارک باد دے دوں کہ جن کے گھروں کو اسرائیلی اور امریکی جنگی جہازوں نے بمباری کے ذریعے منہدم کر رکھا ہے۔ جن پر روزانہ معمول سے بمباری کی جا رہی ہے، جبکہ گھر ملبہ کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ بیروت شہر جو روشنیوں اور خوشیوں کا شہر تھا، آج کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے تو میں ایسے حالات میں کس طرح لبنان والوں کو عید مبارک کہہ سکتا ہوں۔؟ پھر سب سے بڑھ کر لبنان میں بسنے والی ایک عظیم شخصیت سید حسن نصراللہ اور ان کے دنیا بھر میں کروڑوں چاہنے والوں کو کس طرح عید مبارک کہہ دوں۔؟

میں دنیا کے سب لوگوں کو عید مبارک کہہ رہا ہوں، لیکن فلسطین و غزہ اور لبنان والوں کو کس منہ سے عید مبارک کہہ دوں؟ جبکہ ہم نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ہم ان کی مدد کرسکتے تھے، لیکن نہیں کی تو اب عید مبارک کس طرح کہہ سکتے ہیں۔؟ عید مبارک تو وہ لوگ کہہ سکتے ہیں، جنہوں نے عملی طور پر غزہ و لبنان والوں کے لئے مدد کی ہے اور ان کے لئے آواز بلند کی ہے۔ اگر ہمارا شمار ایسے لوگوں میں سے ہے کہ صرف ہم نماز و روزہ میں مشغول رہے اور عبادات میں مصروف عمل رہے اور اپنے غزہ و لبنان کے بھائیوں کو فراموش کیا تو اب ہمیں یہ حق بھی نہیں ہے کہ ہم ان کو عید مبارک کہہ سکیں۔

عید ضرور منائیں، لیکن فلسطین و غزہ اور لبنان و یمن کے مظلوم عوام کو یاد رکھیں کہ جو پوری انسانیت اور امت مسلمہ کے تحفظ اور عزت و آبرو کی جنگ لڑ رہے ہیں اور میدان میں قربانیاں دیتے ہوئے اعلان کر رہے ہیں کہ ذلت کے راستے کو قبول نہیں کریں گے۔ یمن و لبنان کے لوگ امریکی اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، کیونکہ وہ عہد کرچکے ہیں کہ غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیا ہم نے ایسا کوئی عہد کیا ہے۔؟ کیا ہم نے ایسا کوئی کام کیا ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔؟ ہمیں سوچنا ہوگا اور آج ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ وقت کافی بیت چکا ہے، لیکن دیر اب بھی نہیں ہوئی ہے۔ دیر آئے درست آئے کی بنیاد پر ہمیں آج بھی فیصلہ کر لینا چاہیئے اور یمن و لبنان والوں کی طرح غزہ کی حمایت سے کسی بھی صورت دستبردار نہ ہونے کا عزم مصمم کرنا چاہیئے۔

آج ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھ رہے تو یقین رکھیئے کل قیامت کے دن ہمیں پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ آج وقت ہم سے تقاضہ کر رہا ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ خاموش تماشائیوں کی صف سے نکل کر میدان والوں کی صف میں آئیں۔ یہ کسیے ہوسکتا ہے کہ مسلم امہ ایک جسد واحد کی طرح ہو اور پھر اس جسد واحد کے ایک حصہ فلسطین سے خون رس رہا ہو اور جسد واحد درد بھی محسوس نہ کرے، نہیں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ مجھے ایک فلسطینی کے یہ جملے شدید کرب میں مبتلا کر رہے ہیں کہ اس نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ "عید مبارک" کہہ سکتے ہیں اور اکٹھے ہو کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، لیکن آخر کون سی عید۔؟ فلسطینی لڑکی کہتی ہے کہ "کوئی رمضان نہیں، کوئی عید نہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں کچھ بھی تو معمول پر نہیں۔ ہم صرف بیٹھ کر غزہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔"

خلاصہ یہ ہے کہ آپ ضرور عید منائیں، آپ کو کسی نے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن مظلوموں کے درد کو یاد رکھیئے، بائیکاٹ جاری رکھیں، فلسطینی عوام کے لئے جو ممکن ہو، ان کی مدد کریں۔ ایسے حالات میں کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے درد پر خاموش تماشائی بنا رہے، فلسطینیوں کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئیں اس عید پر ہم اپنے غزہ، لبنان اور یمن کے مظلوم بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں اور پھر ان کے درد کا مداوا کرنے کے لئے عملی اقدامات انجام دیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو عید مبارک کہہ لبنان والوں سکتے ہیں نہیں کی اور یمن رہے ہیں یمن کے کے درد کیا ہے غزہ کے کے لئے عید کی ہے اور

پڑھیں:

وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر

کتنی اچھی تھی وہ بیسویں صدی۔تھوڑے سے ڈاکٹر، اور تھوڑے ہی مریض ہوتے۔ موسمی بخار  اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعا یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد جیسے ’سنگین امراض‘ بھی لاحق ہوجاتے۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کی بجائے اسپتال پہنچ جاتے۔ یوں سرجیکل وارڈ ہی ہر اسپتال کے بڑے وارڈز ہوتے۔ تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے ہفتے 20 ہلاک 40 زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویہ شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔  یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویہ سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا۔

نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ 50 روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو۔ کم از کم 50 کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔ مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے 2 عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کون سا کلینک ہے اور کون سی پرچون کی دکان؟ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اور اس کا  کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے۔ اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر  ڈاکٹر  ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرماتے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے 50 کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں  کم آمدنی کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے

’ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔‘

دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب  ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔

جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر  خود عجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لیے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔ اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی  ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں، اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لیے سویپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے، اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ صورت بیشک ڈراؤنی ہے مگر ہے دوشیزہ ہی۔ اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار کھڑا ہے۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ اور ماشاءاللہ  کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینا پڑتی تھی جو 50 روپے ہوتی۔ اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچ بھی مریض نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل، وہ باہر والی دوشیزہ،  اندر والے اسسٹنٹ اور سویپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان 4 لوگوں کی ادا کرنا ہوتی ہے۔

آپ نے غور کیا؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ 50 روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا  کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا

’منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا’

اور یہ آج کل والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے

مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !

‘سیریس؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟‘

’نہیں بھئی !  مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعا کیجیے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو ناں۔ یہ پرچی لیجیے، اور ’لٹ مچاؤ لیب‘ سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔‘

جو شخص کچھ ہی دیر قبل  بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو  اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے:

میں ’لٹ مچاؤ لیب‘ کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔

اور جب وہ 10 ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتا ہے تو  یہ رپورٹ پر ایک  نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے

’شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ 5 دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجیے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔‘

’سر ! زکام کے لیے اتنی ساری دوائیں؟‘

’یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجیے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی  توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔‘

یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر  لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لیے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لیے ہماری جیبوں بلکہ تجوریوں پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح ’ڈاکے‘ والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ نیورالوجسٹ ڈپریشن کےشکار شخص کا ڈیڑھ برس تک اس کے باوجود علاج کرتے ہیں کہ ڈپریشن سرے سے طبی مرض ہی نہیں۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے۔ سو یہ جب بھی سوشل سرگرمیاں کمپرومائز کرے گا، ڈپریشن کا شکار ہونا طے ہے۔ کیا نیورالوجسٹ کو نہیں معلوم کہ ڈپریشن طبی عارضہ نہیں؟ اور اس کا شکار شخص کبھی بھی دوا کے ذریعے اس سے نجات نہیں پاسکتا ؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے مگر کلینک آیا شخص تو ڈاکٹر کی روزی روٹی ہے۔ بھلا کوئی روزی روٹی کو بھی لات مارتا ہے؟

اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس مت جایئے۔ بس اتنا کر لیجیے کہ اپنی سوشل سرگرمی کے تینوں سرکل پوری طرح ایکٹو کر لیجیے۔ پہلا سرکل فیملی کا ہے۔ فیملی کو باقاعدہ وقت دیجیے۔ اہلخانہ سے روز کم از کم گھنٹہ دو گپ شپ کیجیے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام 6 بجھے سے رات 9 تک گھر کا وائی فائی بند رکھیے۔ وہ بند ہوگا سب اہلخانہ ٹی وی لاؤنج میں ہوں گے، اور خود کار طور پر گپ شپ کا ماحول بن جایا کرے گا۔

دوسرا سرکل آپ کے رشتے داروں کا ہے، ان سے اسی طرح میل جول اختیار کر لیجیے جس طرح سوشل میڈیا دور سے قبل والی نسل کا تھا۔

تیسرا سرکل ذاتی دوستوں کا ہے۔ ان میں آپ کے کلاس فیلوز، کولیگز، ٹیم میٹس، اور گاؤں والوں سمیت وہ سب آتے ہیں جن سے آپ کی ذاتی دوستی ہے۔ ان سے بھی آپ کا میل جول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

اگر آپ کے یہ تینوں سرکل پورے بھی ہیں اور نارمل بھی ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ وبا سوشل میڈیا دور کی دین ہے۔ اس کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ سو اس کے علاج کے لیے نیورالوجسٹ سے دور رہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • مودی کا پہلگام حملہ آوروں اور منصوبہ سازوں کا دنیا کے آخری کونے تک پیچھا کرنے کا عزم
  • حکومت کا بڑا فیصلہ، پراپرٹی خریدنے والوں کیلئے خوشخبری
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • حکومت نے دہری شہریت والوں کو بڑی خوشخبری سنا دی
  • پی آئی اے کی نجکاری کے لیے اشتہار جاری، دلچسپی رکھنے والوں سے درخواستیں طلب
  • حکومت کا بڑا فیصلہ، پراپرٹی خریدانے والوں کیلئے خوشخبری
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • ملازمین کو کم سے کم اجرت 37 ہزار نہ دینے والوں کی گرفتاریاں
  • چین کی مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت