قابض اسرائیلی فوج کے سفید جھوٹ پر صیہونی میڈیا بھی تلملا اٹھا
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں فلسطینی امدادی کارکنوں کو موقع پر ہی مار ڈالنے کے بارے قابض اسرائیلی فوج کے متضاد بیانات اور سفید جھوٹ نے غاصب صیہونی رژیم کے عبری میڈیا کو بھی بولنے پر مجبور کر دیا ہے اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں واقع شہر رفح میں 15 فلسطینی امدادی کارکنوں کو اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنانے اور انہیں اجتماعی قبر میں دفن کر دینے کے قابض و سفاک صیہونی فوج کے اقدام سے متعلق غاصب اسرائیلی فوج کے دھوکے دہی و سفید جھوٹ پر مبنی بیان نے غاصب اسرائیلی رژیم کے عبرانی زبان کے صیہونی میڈیا کو بھی بولنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس حوالے سے عبری زبان کے صیہونی ای مجلے واللا کے رپورٹر و تجزیہ کار بارک رفید نے اپنی رپورٹ میں قابض صیہونی فوج کے اس گھناؤنے جرم کے بارے لکھا ہے کہ اسرائیلی فوج کئی دنوں سے غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں وقوع پذیر ہونے والے اس خطرناک واقعے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جس میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کے متعدد اراکین کو صیہونی فوج کی اندھا دھند فائرنگ میں مار ڈالا گیا تھا۔
بارک رفید نے لکھا کہ اسرائیلی فوج کا ایک دعوی یہ بھی تھا کہ ایمبولینسز اور فائر ٹرک انتباہی لائٹس (بیکنز) کے بغیر اس علاقے میں داخل ہوئے تھے لہذا ان کی شناخت نہیں ہو سکی، لیکن اب ایک ایسی ویڈیو جاری کر دی گئی ہے کہ جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ دعوی بھی سفید جھوٹ تھا۔ صیہونی تجزیہ کار نے تاکید کی کہ یہ واقعہ اسرائیلی فوج اور بین الاقوامی میڈیا کے درمیان تعلقات میں ایک گہری دراڑ و انتہائی خطرناک موڑ ہے! اسرائیلی صحافی نے لکھا کہ صیہونی فوج اور اس کے ترجمان نے اپنے ابتدائی ردعمل میں دنیا کے تمام میڈیا سے کھلا جھوٹ بولا تھا اور صرف اس ایک جھوٹ کی وجہ سے ہی اسرائیل کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ اس واقعے کہ جو بظاہر ایک جنگی جرم ہے، کے نقصان سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اپنی رپورٹ کے آخر میں بارک رفید نے مزید لکھا کہ فوجی صحافیوں کو نام نہاد "موراگ ایکسس" آپریشن کے بارے اسرائیلی فوج کے ترجمان کے بیانات کی پیروی کے بجائے، ہلال احمر کے طبی عملے کی "سزائے موت" پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے کہ جو ایسا لگتا ہے کہ جنگ (غزہ) کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ سنگین جرائم میں سے ایک ہے۔
ادھر اسرائیلی نیوز چینل کان نے بھی لکھا ہے کہ صیہونی فوج نے رفح میں طبی ٹیموں کو سر عام "سزائے موت" دے دینے کے بارے، جاری کیا گیا اپنا بیان ایک مرتبہ پھر بدل دیا ہے اور اس مرتبہ دعوی کیا ہے کہ یہ لوگ حماس کی ایک گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ صیہونی چینل کے مطابق اسرائیل فوج نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے "سزائے موت" پانے والے 15 افراد میں سے 6 حماس کے رکن تھے اور باقی ایمبولینس کے اہلکار!!
معروف صیہونی اخبار یدیعوت احرونوت نے بھی اس حوالے سے لکھا ہے ہے کہ رفح میں نشانہ بننے سے قبل ایمبولینسوں اور طبی عملے کی نیویارک ٹائمز کی جانب سے شائع ہونے والی ویڈیو نے اسرائیلی فوج کو ایک نئی مشکل میں ڈالتے ہوئے اسے اپنے سابقہ بیانیے کو 3 مرتبہ بدلنے پر مجبور کیا ہے۔
-
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج کے صیہونی فوج سفید جھوٹ علاقے میں کے بارے
پڑھیں:
کراچی؛ تاجر برادری نے بجٹ کو مبہم قرار دے دیا، شرح نمو، ٹیکس اہداف پر سوالات اٹھا دیے
کراچی:کراچی کی تاجر اور صنعت کار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھا دیے۔
کراچی چیمبرآف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی ایم جی گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے، گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہیں ہوسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی، ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی، پاکستان کی مسابقت کو آسان بنا کر برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی آبادی کو کیسے روزگا دیں گے اور بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں ہے، سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں، بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا ۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں، ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے، پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی 5 ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے، نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی، عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے بجٹ میں ان سوالات کا جواب نہیں ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا، لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروا رہے ہیں، 50 فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہو رہا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت صوبوں کی ذمہ داری ہے، اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار 90 کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
جاوید بلوانی نے کہا کہ ای ایف ایس اسکیم کی وجہ سے برآمدات میں کچھ اضافہ ہوا، اس کو بھی اب خراب کیا جا رہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے، حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے رکھے گئے جو ناکافی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے 50 فیصد کم آبادی والے شہروں کے لیے، کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئیں۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی، برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں۔
حکومتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ روکا گیا، اسے مائنس میں لانا ضروری ہے، بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں، 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بنا کر دکھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
سابق صدر انجم نثار نے کہا کہ بجٹ میں روزگار بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیسے ہوگی، چھوٹے چھوٹے ملکوں کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کا پہیہ چلنے دیں، کئی سال سے کے فور کا منصوبہ نہیں بن سکا، ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا جا رہا ہے، اس پر سود کیسے ادا کریں گے، کسٹم تین روز میں کلیرینس نہ ہونے پر پینلٹی کی تجویز غلط ہے۔
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی، 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا، ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
انہوں نےکہا کہ رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی، تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا، بجٹ میں ایکسپورٹ کی مد میں ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔