Express News:
2025-04-25@11:16:27 GMT

دہشتگردی کا خاتمہ… ترقی وخوشحالی کا ضامن

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اربابِ اختیار کا عزم اور حکومت کی پالیسی کے بارے میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ دہشت گردی کی جو جہتیں اور پرتیں ہیں، وہ بھی آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو پروان چڑھانے کی جو وجوہات ہیں وہ بھی خاصی حد تک منظرعام پر آ چکی ہیں۔ گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ کی زیرصدارت کورکمانڈر کانفرنس ہوئی ہے۔ اس میں بھی ہر قیمت پر بلا تفریق دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔

میڈیا میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر، نشانِ امتیاز(ملٹری) کی زیر صدارت 268 ویں کور کمانڈر کانفرنس نے مادرِ وطن کے امن و استحکام کے لیے شہدائے افواج ِ پاکستان ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کی لازوال قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فورم کو خطے کی موجودہ صورت حال، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں پاکستان کی حکمتِ عملی کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔ کانفرنس میں علاقائی اور داخلی سلامتی کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ بھی لیا گیا۔

فورم نے ہرقیمت پر بلاتفریق دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والے ملک دشمن عناصر ، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی، کسی کو بھی بلوچستان میں امن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان کے استحکام اور خوش حالی میں خلل ڈالنے والے مذموم سیاسی مفادات اور سماجی عناصر کو بلوچستان کے عوام کی غیر متزلزل حمایت سے فیصلہ کن طور پر ناکام بنایا جائے گا۔ بلوچستان میں تمام ملکی اور غیرملکی عناصر کا اصل چہرہ، گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے اور پروان چڑھانے کی کوششیں پوری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہیں۔کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے کہا کہ ایسے عناصر اور ایسی کوششیں کرنے والوں کوکسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائے گئی ۔

فورم نے نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار کے تحت’’ عزمِ استحکام‘‘ کی حکمتِ عملی کے تیز اور موثر نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔ فورم نے دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کے تعاون سے مشترکہ نقطہ نظر کی اہمیت کو بھی اْجاگر کیا ۔شرکاء کانفرنس نے اعادہ کیا کہ ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون پر پوری استقامت سے عمل درآمد کریں گے، قانون کی عملداری میں کسی قسم کی نرمی اور کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔

آرمی چیف نے پاکستان بھر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم شدہ ضلعی رابطہ کمیٹیوں کے آغاز کو بھی سراہا۔آرمی چیف نے بغیر کسی رکاوٹ کے نیشنل ایکشن پلان کے تیز نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں حکومتی ہدایات کے مطابق تمام ادارے پائیدار ہم آہنگی ، مربوط کوششوں اور تعاون کو یقینی بنائیں۔ پاک فوج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کی مالی اعانت کے خلاف سخت قانونی اقدامات میں مکمل تعاون فراہم کرے گی، غیر قانونی سر گرمیاں دہشت گردی کی مالی معاونت سے اندرونی طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

حالیہ عرصے میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف خاصی نتیجہ خیز کارروائیاں کی ہیں۔ ان کارروائیوں میں دہشت گردوں کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کو پروموٹ کرنے والے خیالات ونظریات کو مسترد کیا جائے۔ دہشت گردوں کی جب تک فنانس لائف لائن موجود ہے، اس وقت تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد ایک منصوبے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی ان کی اسٹرٹیجی واضح نظر آتی ہے۔

پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے ہیں، وہ دہشت گردوں کے لیے سازگار ہیں۔ افغانستان کی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ پورے افغانستان میں اپنی رٹ قائم کر سکے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ افغانستان کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ ایک ریاست سے زیادہ بے آئین علاقہ زیادہ نظر آتا ہے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں آج بھی وار لارڈز کا کنٹرول ہے۔ ایسی صورت میں دہشت گرد اور انتہاپسند گروہوں کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ گاہ کے لیے آئیڈیل ہے۔ پاکستان کے لیے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ماضی میں کیپٹل ازم اور سوشلزم کے درمیان جو نظریاتی چپقلش جاری رہی، اس کی وجہ سے افغانستان، ایران اور پاکستان میں دائیں بازو کے نظریات اور سوچ کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس وجہ سے اس پورے خطے میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ نے جنم لیا اور کولڈ وار کی وجہ سے اس مائنڈ سیٹ نے سیاست، معیشت اور معاشرت پر بالادستی حاصل کر لی۔ آج ان تین ملکوں میں دائیں بازو کی سوچ طاقت ور حلقوں تک میں موجود ہے۔ بہرحال اب چونکہ کولڈ وار ختم ہو چکی ہے اور دنیا میں نئے نظریات اور صف بندیاں ہو رہی ہیں، اس تناظر میں پاکستان نے بھی لازمی طو رپر تبدیل ہونا ہے۔

امریکا میں ٹرمپ کی شکل میں جو سوچ پیدا ہوئی ہے، اس نے عالمی تجارت کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے۔ اس کے اثرات پوری دنیا کے ممالک پر پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی نئے حالات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں انتہاپسندی کا کلچر مسائل کو زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر بنا رہا ہے۔ پاکستان میں جو مخصوص گروہ اور مائنڈسیٹ انتہاپسندی کو پروموٹ کرنے میں مصروف ہے، وہ درحقیقت پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کر رہا ہے۔ پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے یہاں امن کا قیام، جمہوری اقدار کی پاسداری اور آئین وقانون کی حکمرانی قائم کرنا لازم ہو چکا ہے۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں چونکہ سماجی سیٹ اپ اس قسم کا ہے کہ یہاں معاشی تقسیم کی مختلف تہیں نہیں ہیں۔ یا تو بالادست طبقہ ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سماج کے خدوخال قدیم قبائلی اور سرداری اقدار اور روایات کو لیے ہوئے ہیں۔ تعلیم کا فقدان ہے، انفرااسٹرکچر کی کمی ہے، حکومتی سسٹم بھی قبائلی وڈیروں اور سرداروں کے زیرنگیں ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیاں اور کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ درمیانے طبقہ کا وجود نہیں ہے۔

صوبائی حکومتوں کی جوابدہی کی روایت بھی موجود نہیں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو جو مالی اور انتظامی اختیارات ملے ہیں، اس کے مقابلے میں اگر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ انتہائی کم ہے۔ علاقائی سیاست بھی قبیلوں کے درمیان تقسیم ہے۔ اس قسم کی سیاست بھی مسائل کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔ ملک کی مین اسٹریم پاپولر پارٹیز کا تنظیمی ڈھانچہ بھی قبائلی اور سرداری نظام کے گرد گھومتا ہے۔ اس وجہ سے بھی غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنا خاصا مشکل کام ہو چکا ہے۔

اس قسم کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے وفاق پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کو غیرمعمولی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں کے حوالے سے بھی سرکاری خزانے کے اخراجات اور خرچ کا کوئی ایسا میکنزم تیار ہونا چاہیے، جس سے پتہ چل سکے کہ صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تخمینہ اور حجم کتنا ہے اور ان محکموں کی کارکردگی کیا ہے۔ صوبے کے ٹیکس ریونیوز کی وصولی کی شرح کیا ہے اور کتنا ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ماضی کی روایت کی پاسداری جاری رہے اور سرکاری اخراجات کا کوئی حساب اور تخمینہ نہ ہو۔

پارلیمنٹیرینز اور سیاسی قیادت کو بھی اپنے طرزعمل اور سیاسی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔ ماضی کی سیاست اب نہیں چل سکتی۔ صوبائی منافرت پھیلانے سے بھی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہر صوبے کو اعداد وشمار سامنے رکھ کر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بات کرنی ہو گی۔ اب چونکہ سردجنگ کا دور تبدیل ہو چکا ہے، ترقی یافتہ ملکوں سے امدادیں اور گرانٹس بھی ماضی کی طرح نہیں مل سکتیں۔ محض وفاق کو نشانہ بنانے سے بھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قوم پرستی کی سیاست کا یہ مطلب نہیں کہ کسی ایک صوبے یا مخصوص کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔

قوم پرستی کی سیاست کا مطلب اپنی قوم کے لیے ترقی کی منصوبہ بندی کرنا اور اس پر وسائل خرچ کرنا ہے۔ دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ صوبوں کے لیے بھی ترقی کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں دہشت گردی کی تمام شکلوں کی بیخ کنی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیشنل ایکشن پلان کے بلوچستان میں دہشت گردی کو دہشت گردی کی کرنے والے کی سیاست نہیں ہے کے خلاف سے بھی کو بھی اور ان کے تحت ہے اور کے لیے

پڑھیں:

آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ

عطا تارڑ (فائل فوٹو)۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا گیا، آج پاکستان نے بھارت کی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا۔ 

میڈیا سے گفتگو میں عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ ہم نے بھارتی بیانات پر دگنا بڑھ کر جواب دیا، بھارت سے تجارت مکمل طور پر بند ہے۔ 

وزیر اطلاعات نے کہا کہ بھارت کے پاس صرف اونچی آواز اور گیدڑ بھبکیاں ہیں، بھارت دہشت گردی کو استعمال کرتا رہا ہے۔

افواج پاکستان کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کےلیے تیار ہیں، نائب وزیراعظم

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے...

انھوں نے کہا کہ پوری دنیا جان چکی کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کو اسپانسر کرتا ہے، آج بھارت اپنے سیاسی فائدے کے لیے دہشت گردی کو استعمال کر رہا ہے۔ 

عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ آج ہم نے سود سمیت حساب برابر کیا ہے۔

علاوہ ازیں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، اگر ہمارے شہریوں پر حملہ ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے دفاع کا پورا حق رکھتا ہے، اگر بھارت نے کوئی ایڈونچر کرنا چاہا تو پاکستان تیار ہے، پاکستان اپنے دفاع میں کسی بین الاقوامی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے، جو بی ایل اے کر رہی ہے، جو افغانستان سے ہورہا ہے اس میں بھارت کا ملوث ہونا نظر آتا ہے۔

پاکستان کی ملکیت پانی کا بہاؤ موڑا گیا تو اسے جنگ کا اقدام سمجھا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی

قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ بطور ریاست بھارت نے کینیڈا اور امریکا میں دہشت گردی ایکسپورٹ کی، دہشت گردی کے باعث کینیڈا نے بھارت کے خلاف احتجاج کیا، سب سے بڑی زندہ گواہی ہمارے پاس کلبھوشن بیٹھا ہے، ہم اپنے دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں، ہمارے پاس زندہ گواہی یہاں کلبھوشن جادیو بیٹھا ہے، بی ایل اے کھلم کھلا بھارت کے ساتھ اپنے تانے بانے ڈکلیئر کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو دہشت گردی قرار دیدیا
  • مودی دہشت گردی کے جہادی جواب کی ضرورت
  •  پاکستان میں دہشت گردی کے لیے  بھارت دراصل کسے مسلح کررہا ہے؟ تہلکہ خیز دعویٰ
  • آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ
  • بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • بھارت پاکستانی شہریوں پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اگر ایسا ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے، وزیر دفاع
  • بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • سندھ طاس معاہدہ معطل، ویزے بند، بھارتی آبی، سفارتی دہشت گردی: جامع جواب دینگے، پاکستان
  • بھارت کی کسی بھی احمقانہ حرکت کا منہ توڑ جواب دیں گے، خواجہ آصف کا اعلان
  • پاکستان اور ترکی کا دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا عزم