اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اپریل 2025ء) گزشتہ برس جن ممالک نے موت کی سزاؤں پر تیزی سے عمل کیا اس میں ایران، سعودی عرب اور عراق میں ریکارڈ سطح پر 90 فیصد کیسز درج کیے گئے، جو اس اضافے کے اہم ذمہ دار ہیں۔ ایران اس فہرست میں سرفہرست رہا اور اس نے سن 2024 میں کم از کم 972 افراد کو موت کی سزا دی، جبکہ اس سے ایک برس قبل یہ تعداد 853 تھی۔

سعودی عرب میں بھی موت پر عمل کے اعداد و شمار دوگنا ہو کر کم از کم 345 تک پہنچ گئے۔ انسانی حقوق کے نگراں ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مملکت میں اب تک کے جو ریکارڈ درج کیے تھے، یہ ان میں سب سے زیادہ ہے۔ عراق میں 63 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جو کہ 2023 کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں چین کو "دنیا کا سب سے بڑا جلاد" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دستیاب معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں ہزاروں افراد کو سزائے موت دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

البتہ بیجنگ اس کا ڈیٹا ظاہر کرنے سے انکار کرتا ہے۔ ایمنسٹی کو شک ہے کہ شمالی کوریا اور ویتنام نے بھی بڑے پیمانے پر سزائے موت کا سہارا لیا ہے۔ اختلاف رائے کو خاموش کرانے کی کوشش

سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان نے جدید ایجنڈے کو اپنانے اور موت پر عمل کو روکنے کے وعدے کیے ہیں، تاہم اس کے باوجود وہاں موت کی سزاؤں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس کا ایک بڑا مقصد سیاسی اختلاف رائے کو کچلنا تھا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے ملک کی شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایسے شہریوں کو سزا دینے کے لیے سزائے موت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جنہوں نے 2011 اور 2013 کے درمیان "حکومت مخالف" مظاہروں کی حمایت کی تھی۔

گزشتہ اگست میں حکام نے عبدالمجید النمر کو القاعدہ میں شمولیت کے حوالے سے دہشت گردی سے متعلق جرائم کی پاداش میں پھانسی دی تھی، حالانکہ ابتدائی عدالتی دستاویزات میں واضح طور پر مظاہروں میں ان کی شرکت کا حوالہ دیا گیا تھا۔

ایمنسٹی میں سزائے موت کی محقق چیارا سانگیورجیو نے کہا، "میڈیا میں، ہم نے دیکھا ہے کہ آخر حکام نے کس طرح اس کیس کو دہشت گردی اور دہشت گردی سے متعلق جرائم سے متعلق بیانیہ کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کو کس طرح اس تاثر کو آگے بڑھانے کے لیے بطور ایک آلے کے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اختلاف رائے کو روکنے اور عوام کے تحفظ کے لیے سزائے موت بہت ضروری ہے۔

"

ایران میں سن 2022 میں پولیس حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے سلسلے میں دو مزید پھانسیاں بھی دی گئیں۔ ان میں سے ایک 23 سالہ محمد غوبادلو کو موت کی سزا دی گئی، جو ایک طویل مدتی ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کے ساتھ ہی احتجاج میں بھی شامل ہوتے تھے۔

ایمنسٹی کہ سکریٹری جنرل اگنیس کالامارڈ کہتی ہیں، "خاص طور پر ایران اور سعودی عرب میں، جو لوگ حکام کو چیلنج کرنے کی جرات کرتے ہیں، انہیں انتہائی ظالمانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

موت کی سزا ان لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔" منشیات سے متعلق جرائم اور موت کی سزا

گزشتہ برس 40 فیصد سے زیادہ سزائے موت مبینہ منشیات سے متعلق جرائم کے لیے دی گئیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق سنگاپور اور چین میں منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد بھی بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔

کالمارڈ نے کہا، "بہت سے معاملات میں منشیات سے متعلق جرائم کے حوالے سے لوگوں کو موت کی سزا دینے سے پسماندہ پس منظر والے افراد پر غیر متناسب اثر پڑتا ہے، جبکہ منشیات کی اسمگلنگ کو کم کرنے میں اس کا کوئی خاطر خواہ اثر بھی نہیں ہوتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ جو ممالک اس وقت منشیات سے متعلقہ جرائم کے لیے سزائے موت متعارف کرانے پر غور کر رہے ہیں، جیسے کہ مالدیپ، نائیجیریا اور ٹونگا، انہیں متنبہ کرنے کے ساتھ ہی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ منشیات سے متعلق وہ اپنی پالیسیوں کے مرکز میں انسانی حقوق کو رکھیں۔

ادھر ملائیشیا میں، تقریباً 1,000 افراد جنہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور جن میں سے بیشتر پر منشیات کے الزامات تھے، کو 2023 میں پیش کی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں معافی دے دی گئی۔ واضح رہے کہ ملک نے اسمگلنگ سمیت جرائم کے لیے لازمی سزائے موت کو ختم کر دیا ہے۔

مغربی دنیا میں امریکہ موت کی سزاؤں میں سب سے آگے

مغربی جمہوریتوں میں سزائے موت کے استعمال میں امریکہ سب سے آگے ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اگرچہ 2024 میں امریکہ میں مجموعی طور پر 24 سے 25 افراد کو موت کی سزا دی گئی، جو اعداد و شمار میں ایک معمولی اضافہ دکھتا ہے، تاہم اس سے متعلق رجحانات کافی تشویش ناک ہیں۔

ایمنسٹی کے ایک محقق سانگیورجیو نے کہا کہ "جب پھانسی اور موت کی سزاؤں کی بات کرتے ہیں، تو تاریخی سطح پر اعداد و شمار بہت کم دکھتے ہیں، تاہم پچھلے سال ہم نے چار ریاستوں، جنوبی کیرولائنا، جارجیا، یوٹا اور انڈیانا میں بھی موت کی سزاؤں پر دوبارہ عمل شروع کر دیا۔

یہ انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ یہ وہ ریاستیں تھیں جہاں کئی سالوں سے ان پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔"

ریاست الاباما میں موت کی سزاؤں کی تعداد دوگنا ہو گئی اور اس میں نائٹروجن گیس کا استعمال بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے مبصرین نے کہا ہے کہ نائٹروجن ہائپوکسیا کے ساتھ دم گھٹنے سے موت اذیت دینے کے مترادف ہو سکتی ہے۔

ص ز/ ج ا (جولی گریگسن)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیے سزائے موت کو موت کی سزا دی منشیات سے متعلق موت کی سزاؤں جرائم کے لیے موت پر عمل ہوتا ہے نے کہا

پڑھیں:

فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے  عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ  وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔

انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔

دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔

یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔

ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔

خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں،  وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوجی و چینی پروفیسر کے درمیان غیر معمولی تلخ مکالمہ
  • چارلی کرک قتل کیس: ملزم پر فرد جرم، سزائے موت کی استدعا
  • اسپین نے غزہ میں اسرائیلی جرائم کی تحقیقات کی منظوری دے دی
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • بی جے پی حکومت میں خواتین کا تحفظ مذاق بن چکا ہے، کانگریس
  • سونے کی قیمت میں بڑی کمی، تاریخی اضافہ برقرار نہ رہ سکا
  • کراچی، ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج