Express News:
2025-07-26@15:05:07 GMT

کسان کو مزید مایوس نہ کریں

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

گزشتہ ہفتے آبائی گاؤں میں گزرا، ہم دیہاتی اپنے آبائی گھروں کو لوٹنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے دیہات کی پرسکون اور پر لطف فضاء میں چند روز گزارنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ روزگار کے سلسلے میں شہروں میں مقیم دیہاتی باشندے اپنے آبائی گھروں کو جانے کے لیے ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں ۔

سال بھر میں انھیںعیدین کے دو ایسے مواقع مل جاتے ہیں جب وہ گاؤں لوٹ جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور چھٹیوں کے پر مسرت لمحات اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ میں بھی انھی دیہاتیوں میں شامل ہوں جو ہر وقت گاؤں جانے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ عیدین ایک ایسا موقع ہے جب شہر کے شہر خالی ہوجاتے اور شہروں میں روزگار کے لیے مقیم پردیسی اپنے آبائی وطن لوٹ جاتے ہیں۔ میرا بچپن بھی گاؤں میں گزرا ہے تو لامحالہ دیہاتی زندگی کے ساتھ ایک انمٹ انسیت ہے، دوست احباب کا ساتھ ہے جو میری گاؤں آمد کے منتظر رہتے ہیں ۔

آج کی مصروف زندگی میں ہم شہروں میں بسنے والوں کے لیے یہ چندروز غنیمت ہوتے ہیں کہ ہنگاموں سے دورپر فضاء مقام پر صاف ستھری آب و ہوا میں سانس لینے کا موقع مل جاتا ہے ۔ میرے دیہاتی دوستوں کو یہ خوش فہمی لاحق رہتی ہے کہ میں جو کہ لاہور جیسے پررونق اور ادب نواز شہر سے بسلسلہ روزگار اقتدار کے شہر اسلام آباد ہجرت کر چکا ہوں، میرے پاس شائد تازہ ترین سیاسی معلومات ہوں گی، اس لیے وہ بڑے اشتیاق سے سیاسی سوال کرتے ہیں اورمیں ان کے سوالوں کے جواب میںخاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ ان کے خطرناک سوالوں کے جواب اول تو میرے پاس ہوتے نہیں اور اگر کسی سوال کا جواب معلوم بھی ہوتو مایوسی پھیلانے سے گریز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔

اس مرتبہ عید الفطر اور بعد کے چند ایام میں وادی سون میں موسم ہمیشہ کی طرح تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنے جوبن پر تھا۔ ہوا میں خنکی موجود تھی، دن بھر کی تمازت کے بعد سورج جیسے ہی ڈھلنا شروع ہوتاہے ، ہوا میں موجود خنکی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی اور سرشام ہی موسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اپریل کے مہینے میں بلا مبالغہ رات کو تھوڑی دیر تک ہیٹر چلانا پڑتا اور پھر رضائی میں لپٹ کر جسم کو حرارت میسر آتی ہے تو جسم میٹھی نیند کی آغوش میں پہنچ جاتا ۔موسم کی نامہربانی اپنی جگہ لیکن جو ایک ہفتہ گاؤں میں گزرا نہایت تکلیف دہ گزرا ، اس تکلیف کی بنیادی وجہ کسانوں کے نامسائد حالات ہیں جن سے وہ مسلسل دوچار ہیں اور ان کی چارہ گری کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔

حکومت کی جانب سے جو چند ایک اقدامات کیے جارہے ہیں، وہ حقیقت میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کیونکہ پنجاب کے شہر اقتدار لاہور کے عالی شان دفتروں میں بیٹھے بابوؤں کا کاشت کاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور جو چند ایک حقیقت حال سے آگاہ ہوں گے، میرے خیال میں وہ بھی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی ترجیح دیتے ہوں گے کہ حکم حاکم مرگ مفاجات والا معاملہ بن چکا ہے۔ جو بھی کسان ملا وہ شکوہ کناں تھا کہ منڈی میں آڑھتی کے پاس اس کی فصل کے دام ہی نہیں ہیں اور منڈی تک فصل پہنچانے پر جو خرچ آتا ہے وہ بھی فصل کی فروخت سے پورا نہیں ہورہا ہے، اس کا آسان حل کسانوں کے پاس ایک ہی بچا ہے اور انھوں نے اپنی فصل جانوروں کو بطور چارہ ڈالنا شروع کر دی ہے۔

کسانوں کی بے بسی کا یہ عالم وہی محسوس کر سکتے ہیں جنھوں نے یہ دکھ خود سہا ہو یا ان کا کاشت کاری سے قریب دور کا واسطہ ہو۔ فصل کی کاشت سے لے کر برداشت تک کا عمل جن مراحل سے گزرتا ہے، وہ تمام مراحل کسانوں کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں، مہنگا ڈیزل، مہنگے اور ناقص بیج، مہنگی ادویات، کھاد کی ہوشرباء قیمتیں، بجلی کے بلوں کے جھٹکے اور آخر میں منڈی میں آڑھتی کے ہاتھوں بلیک میلنگ یہ وہ عوامل ہیں جو کسان کی بدحالی کا باعث بن چکے ہیں۔

حکومتوں کی کاریگری اس حد تک محدود رہ گئی ہے کہ وہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے کسانوں کو فصلوں کی کاشت کے لیے قرض فراہم کرتی ہے اور پھر بمعہ سود وصول کرتی ہے۔ پنجاب جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاںلاکھوں کی تعداد میں کسان کاشت کاری کر رہے ہیں، ان میں سے صرف ایک ہزار کسانوںکو قرعہ اندازی کے ذریعے رعائتی قیمتوں پر ٹریکٹر کی فراہمی کو بڑا کارنامہ قرار دیا جارہا ہے حالانکہ انھی کسانوں سے گزشتہ برس حکومت نے گندم خریدنے سے انکار کر دیا تھاجس نے کسان کو معاشی بدحالی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور آج کی خبر یہ ہے کہ حکومت گندم اگاؤ مہم کے سلسلے میں ٹریکٹر تقسیم کر رہی ہے ۔

حکومت کے اس عمل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکمران اپنی ہی پالیسیوں کی نفی کر رہے ہیں، پہلے گندم خریداری سے انکار اور اب گندم اگانے کی ترغیب دی جارہی ہے لیکن گندم کی خرید و فروخت کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے ۔ نہ جانے ’’ کسان مافیا‘‘ حکمرانوں کی کس بات پر اعتبار کرے اور گندم اگائی مہم کے لیے حکمرانوں کی جانب سے کی جانے والی دعاؤں کو کس ضمن میں شمار کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرکاری اسکیمیں بنانے والے بابو کسانوں کے لیے کوئی ایسی قابل عمل اسکیم متعارف کرائیں جس سے تمام کسان مستفید ہوں ، ڈیزل، ادویات، بیج اور کھاد کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول کو موثر کیا جائے ۔ زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخ آج سے چند برس قبل کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ مقرر کیے جائیں اگر اس میں اضافہ بھی مقصود ہے تو اس کی قیمت کو دگنا کر دیا جائے لیکن کسانوں کو عام صارفین کے لیے مقرر کردہ فی یونٹ قیمتوں کے ساتھ ملانا زیادتی ہے اور یہ زیادتی قوم کے ساتھ کی جارہی ہے۔

بہر حال حقیقت بیان کردی ہے، پنجاب کا کسان ہماری محترمہ وزیر اعلیٰ کی توجہ چاہتے ہیں اور وہ حکومت کی کسی ایسی پالیسی کے منتظر ہیں جس میںان کے مسائل کا حقیقی حل موجود ہو۔ کسان نامساعد موسم کو اﷲ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے لیکن شاید حکمران ایسا نہیں سوچتے ۔شہروں میں رہنے والے کیا جانیں، ہمارے کسان کتنے بڑے توکل اور پختہ ایمان والے لوگ ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ مٹی میں ملا کر اﷲ کی رحمت کے منتظر رہتے ہیں اور اﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے البتہ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ان کی مایوسی کا سبب بن رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہتے ہیں ہیں اور کے ساتھ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جولائی 2025ء ) عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعطم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کرپشن انتہا کو پہنچ گئی۔ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال گزرنے کے بعد اب نو مئی کے فیصلے کوئی قبول نہیں کرے گا۔

اس طرح کے فیصلے پہلے بھی اس ملک میں آئے، نہ انہیں سیاستدان قبول کرتے ہیں اور نہ ہی قانون دان مانتے ہین، نو مئی بڑا واقعہ ہے لیکن جب دو سال گزر جائیں تو کوئی فیصلے قبول نہیں کرے گا، جس ملک کا چیف جسٹس آئینی درخواست سُن ہی نہ سکتا ہو تو وہاں پر پھر کون سا انصاف رہ گیا ہے؟ اور جس ملک میں قانون نہ ہو وہ نہیں چلتا یہ تاریخ کا سبق ہے۔

(جاری ہے)

سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ بے شک سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لیں، 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کر لیں لیکن اگر صلاحیت نہیں تو ملک نہیں چلا سکتے، حکومت ناکام ہے اور اسے خود اپنے آپ سے چیلنج ہے، یہ جتنے برس بھی رہیں ملک آگے نہیں بڑھے گا، آج جتنے چیلنجز پاکستان کو درپیش ہیں یہ پہلے کبھی نہیں تھے، ملک کو آگے لے جانے کی بات کریں کیوں کہ ملک اس وقت ترقی نہیں کر رہا، سیاسی ڈائیلاگ کریں جس میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن حد سے زیادہ ہے گورننس نہیں ہے، پنجاب کی حقیقت بھی وہی ہے جو باقی صوبوں کی ہے، ایک بات ہوئی کہ سفارش کا خاتمہ ہوگیا، درحقیقت کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے، اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ اب سیدھا پیسے لگائیں، انصاف بھی پیسے سے ملتا ہے، پولیس، گورننس اور ترقیاتی کام سب پیسے سے ہے، ماضی میں گیس ڈویلپمنٹ چارجز لگائے 6 سو ارب حکومت کو چلے گئے، کاربن لیوی بھی یہی ہے، معاشی اعشارے اسٹاک مارکیٹ غریب کی میز پر کھانا نہیں رکھتے، ترقی نہیں ہو رہی تو ملک آگے نہیں جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی اے پی سی بلائے تو ہم جائیں گے: میاں افتخار حسین
  • ملک بھر میں ماہ صفر کا چاند نظر نہیں آیا، یکم صفر المظفر 1447 ہجری اتوار 27 جولائی کو ہو گا
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • اسد عمر کی عبوری ضمانت میں 19 ستمبر تک توسیع
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں: اسد
  • اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
  • عمران خان، بشری بی بی کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت، مزید ایک گواہ پر جرح مکمل
  • بانی پی ٹی آئی کو جیل میں تمام سہولیات مل رہی ہیں، عظمی بخاری
  • جیفری ایپسٹین جنسی اسکینڈل میں ٹرمپ کا نام مزید واضح، اہم انکشافات سامنے آگئے
  • سردار شیر باز کا مزید 10 روزہ ریمانڈ: بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، والدہ مقتولہ