الیکشن کمیشن میں نئے تعینات الیکشن افسران کی ٹریننگ کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2025ء) الیکشن کمیشن نے 23 نئے تعینات الیکشن افسران کے لیے 13 ہفتوں پر مشتمل سروس ٹریننگ کا آغاز کر دیا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق الیکشن کمیشن اکیڈمی میں 9 اپریل سے شروع ہونے والے تربیتی پروگرام کا اختتام 4 جولائی 2025ء کو ہو گا۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تربیتی پروگرام کا باقاعدہ افتتاح کیا جبکہ افتتاحی تقریب میں معزز ممبران الیکشن کمیشن بھی شریک ہوئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے اپنے افتتاحی کلمات میں نئے افسران کو الیکشن کمیشن میں تعیناتی پر مبارکباد دی اور ان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے افسران پر واضح کیا کہ ان کا انتخاب خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہوا ہے اور اس پر ان کو فخر ہونا چاہئے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ جس کے موثر انعقاد کیلئے آئین، قانون رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کی جانکاری اور عملی تجربہ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ تربیتی پروگرام میں آپ کو انتخابی قوانین، حلقہ بندیوں، ووٹر رجسٹریشن، پولنگ کے طریقہ کار و دیگر دفتری امور کی انجام دہی سے متعلق تربیت دی جائے گی اور جہاں تک ممکن ہو گا عملی تجربات و مظاہرہ جات بھی کروائے جائیں گے۔ مزید یہ کہ تربیت کے دوران افسران کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے متعلق بھی آگاہی فراہم کی جائے گی تاکہ دوران سروس اور عملی زندگی میں ٹیکنالوجی کو استعمال کر سکیں۔ اپنے اختتامی کلمات میں چیف الیکشن کمشنر نے نئے افسران کو قوم کی خدمت، آئین وقانون کے مطابق سرکاری امور کی انجام دہی اور عوام کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تلقین کی اور ٹریننگ پر توجہ مذکور کرنے پر بھی زور دیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے الیکشن کمیشن
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والے عوامی احتجاج کے پیشِ نظر لاس اینجلس میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب فیڈرل ایجنٹس اور مظاہرین کے درمیان دوسرے روز بھی جنوب مشرقی لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماونٹ میں کشیدگی برقرار رہی۔
ہفتے کی رات مظاہرین نے میکسیکو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بعض نے چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے، اس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے بارڈر چیف ٹام ہومین نے تصدیق کی کہ نیشنل گارڈز اتوار کو لاس اینجلس میں تعینات کیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت “قانون شکنی کے خاتمے” کے لیے 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
‘ٹرمپ انتظامیہ مجرموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہے۔ ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔’
تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کو ’سوچا سمجھا اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔
امیگریشن پالیسی پر شدید ردعملمظاہروں کا آغاز ان امیگریشن چھاپوں کے بعد ہوا، جن میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے ایجنٹس نے کم از کم 44 افراد کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا۔ مظاہرے پیرا ماونٹ کے ایک ہوم ڈیپو کے نزدیک بھی ہوئے، جہاں اہلکاروں کے مبینہ طور پر بیس قائم کرنے کی اطلاعات تھیں۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1,000 مظاہرین نے ایک وفاقی عمارت کو گھیر لیا، اہلکاروں پر حملہ کیا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اگرچہ یہ دعویٰ آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن حالات کشیدہ ضرور تھے۔
امیگرنٹس رائٹس گروپ کرلا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلیکا سالاس کے مطابق، وکلا کو حراست میں لیے گئے افراد تک رسائی نہیں دی گئی، جسے انہوں نے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکا-میکسیکو سرحد کو مکمل بند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پرآئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3,000 افراد کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
سیاسی ردعمل اور قانونی سوالاتٹرمپ کے مشیر اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حامی اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’ریاستی خودمختاری پر بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ ہفتے کو مظاہروں کو ’پر تشدد بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔
کولمبیا کے صدر پیٹرو کی طرح، ٹرمپ کے حامیوں نے اس پورے معاملے کو قانون کی بالادستی سے جوڑا، جبکہ مخالفین نے اسے انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بغیر نشانات والی فوجی گاڑیاں اور وردی میں ملبوس اہلکار شہر میں گشت کر رہے تھے۔ چھاپے زیادہ تر ہوم ڈیپو، گارمنٹ فیکٹریوں، اور گوداموں کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں اسٹریٹ وینڈرز اور یومیہ مزدوروں کو گرفتار کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیفن ملر امریکی صدر امیگریشن امیگریشن پالیسی انسانی حقوق ٹرمپ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہری آزادیوں لاس اینجیلس