امریکی ٹیرف پالیسی نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
امریکی ٹیرف پالیسی نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 10 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چین کی وزارت خارجہ نے ایک مختصر ویڈیو جاری کی جس میں ایک فکر انگیز سوال اٹھایا گیا تھا۔سوال یہ تھا کہ کیا آپ “تشدد، بالادستی، جبر، اشتعال انگیزی اور محصولات کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں، یا ایک ایسی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں جہاں کوئی جنگ نہ ہو، تمام حجم کے ممالک برابر ہوں اور ہم آہنگی کے ساتھ رہیں؟
” یہ مسئلہ ایک آئینے کی طرح موجودہ عالمی صورتحال کی بے چینی اور پیجیدگی کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر حالیہ امریکی ٹیرف پالیسی کی وجہ سے شروع ہونے والے سلسلہ وار مسائل لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں جنہوں نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے “ٹیرف کا بحران” پیدا کیا ہے۔ 1930 میں ، امریکہ نے سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا اور 20،000 سے زیادہ درآمدی اشیاء پر محصولات میں نمایاں اضافہ کیا ، جس سے عالمی تجارت 66 فیصد تک سکڑ گئی تھی اور امریکہ بھی گریٹ ڈپریشن کےدور میں چلا گیا تھا ۔
تاریخ خود کو حیرت انگیز طور پر دہراتی ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے محصولات کا حالیہ سلسلہ عالمی معاشی نظام میں ایک بہت بڑا بحران پیدا کر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کو اس سے فائد ہ ہوا ہے ؟اس کا جواب ہے ،نہیں ۔
امریکہ پوری دنیا پر پابندیاں عائد کرکے دوسرے ممالک کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ غنڈہ گردی کے آگے جھکنے سے غنڈہ گردی کی راہ ہموار ہو گی اور سلسلہ رکے گا نہیں ۔ امریکہ کی نظر میں اس کے “حریف” چین سے لے کر اس کے”اتحادی” یورپی یونین اور پھر “اچھا پڑوسی ” کینیڈا تک نے یکے بعد دیگرے امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات اٹھائے ہیں جس پر دنیا کو حیرت نہیں ۔ اقوام متحدہ سے لے کر ڈبلیو ٹی او تک اور پھر بڑے اور چھوٹے تمام ممالک میں امریکہ پر تنقید دیکھی اور سنی جا رہی ہے ۔
امریکی عوام ایک طرف تو اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ کر رہے ہیں، تو دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ پر امریکہ کی ساکھ خراب کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ جبکہ اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ اور بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان امریکی کمپنیاں ٹرمپ حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر غور کر رہی ہیں
” امریکہ کے بھاری محصولات پوری دنیا کے خلاف اقتصادی جوہری جنگ لڑنے کے مترادف ہیں”۔امریکی ارب پتی اور نامور ہیج فنڈ مینیجر بل ایکمین ، جو خود ٹرمپ کے حامی بھی ہیں، نے یہ بات کہی۔ ان کے الفاظ میں، “ایک معاشی جوہری جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ دشمن کو نقصان پہنچانے کے چکر میں اپنا ہی زیادہ نقصان ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب یہ دشمن محض ایک ‘تصوراتی’ دشمن ہو۔”
اب اس “جوہری جنگ” کے “نظریاتی آغاز”کی جانب جائیں تو ٹیرف جنگ کی ابتدا اصل میں ٹرمپ کے تجارتی اور اقتصادی مشیر پیٹر نوارو کی کتاب میں رون وارا نامی ایک نام نہاد “ماہر اقتصادیت” سے آئی تھی۔تاہم، امریکی میڈیا نے انکشاف کیا کہ رون وار نامی کوئی شخص نہیں تھا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نوارو نے ایک خیالی کردار”تخلیق”کیا تھا جو اس کے اپنے ہی نام کے حروف کی ترتیب کی تبدیلی سے بنتا ہے ۔
دشمن خیالی ہے، نظریہ فرضی ہے تو نتیجہ میں بھی ایک ہوائی قعلہ کی طرح ناکامی لازمی ہے.
مزیدسنگین مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ ایک تجارتی شراکت دار، کاروباری مقام اور سرمایہ کاری کی مارکیٹ کے طور پر اپنی ساکھ اور اعتماد کو تباہ کر رہا ہے. یہ امریکہ کو “دوبارہ عظیم” بنانے کے بجائے امریکہ کو “غیر معقول” بنا رہا ہے!
اس بحران نے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عالمی حکمرانی کو فوری طور پر “جنگل کے قانون” سے ” قواعد پر مبنی تہذیب” کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو اور آر سی ای پی بنیادی ڈھانچے کے روابط سے تجارتی رکاوٹوں کو توڑ رہے ہیں۔ آسیان کی ڈیجیٹل معیشت میں تعاون اور افریقی کانٹیننٹل فری ٹریڈ ایریا جیسی نئی قوتیں بھی کثیر جہتی اقتصادی نقشے کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ ایسی صورت میں یکطرفہ پسندی اور “زیرو سم گیم” کو ترک کرنا،اور کیک کو اکیلے خود کھانے کی بجائے اس میں سب کے حصے کے تصور کو اپنانا ہی مخمصے کو ختم کرسکتا ہے۔
سو مضمون کے آغاز میں جو سوال کیا گیا تھا اس کا جواب خود بخود واضح ہے۔ کھلا پن، تعاون، مساوات اور باہمی تعاون ہی تمام ممالک کے لیے موزوں مستقبل ہیں کیوں کہ غندہ گردی کی دنیا ،غنڈہ گردی کرنے والوں کے علاوہ کوئی نہیں چاہتا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عالمی معاشی نظام میں
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!