Daily Ausaf:
2025-06-09@05:20:20 GMT

ذکرِ حبیب ﷺاور اطاعتِ رسولﷺ

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ گھروں میں نماز پڑھنے سے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے روحانی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ ہم اس بات کا شکوہ تو آپس میں اکثر کرتے رہتے ہیں کہ گھروں میں برکت کا وہ پہلے والا ماحول نہیں رہا اور باہمی محبت و اعتماد میں مسلسل کمی آ رہی ہے، لیکن اس کے اسباب پر ہم غور نہیں کرتے۔ ظاہر بات ہے کہ ہمارے گھروں میں نماز کا ماحول ہو گا، قرآن کریم کی تلاوت ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو گا، درود شریف پڑھا جائے گا اور دینی مجالس کا اہتمام ہو گا تو رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا اور فرشتوں کی آمد ہوتی رہے گی۔ لیکن ہم نے اپنے گھروں کے ماحول کو جو رخ دے دیا ہے اور جس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس میں فرشتوں کے آنے جانے اور رحمتوں کے نزول کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔
ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ مختلف حوالوں سے کرتے ہیں اور ذکرِ حبیب ﷺ کے بہت سے حوالے ہیں جو سب درست ہیں۔ مثلاً ہم یہ تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کے اظہار کے لیے کرتے ہیں، جو دراصل ہماری شناخت ہے اور آقائے نامدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کر کے اصل میں ہم اپنی شناخت کو پکا کرتے ہیں اور اس کی تجدید کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ محبت کے اظہار کے لیے بھی کیا جاتا ہے، اس لیے کہ جس کے ساتھ محبت ہو اس کا نام بار بار زبان پر آتا ہے اور اس کا تذکرہ کرتے رہنے کو محبت کرنے والے کا ہر وقت جی چاہتا ہے۔
ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ رحمتوں اور برکات کے حصول کے لیے بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں سرکارِ مدینہ نبی اکرمؐ کا تذکرہ ہو گا وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا اور صرف نزول نہیں، بلکہ بارش ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود سراپا رحمت ہیں اور ان کا مبارک تذکرہ بھی رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کا تذکرہ ہم اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔ ہمارے کسی دوست کا ہمارے سامنے اچھے انداز میں ذکر کیا جائے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے، یہ فطری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں اور نبی اکرمؐ کے مبارک تذکرہ کا ایک مقصد اور فائدہ رضائے الٰہی کا حصول بھی ہوتا ہے۔
ذکرِ رسولؐ کے یہ سارے پہلو درست ہیں اور سب کے فوائد ہمیں ملتے ہیں، لیکن ایک پہلو اور بھی ہے جس کی طرف ہماری توجہ کم ہوتی ہے، حالانکہ اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ کیونکہ وہ رسول اللہ ہیں اور ”اسوہ حسنہ“ ہیں، یعنی ہمارے لیے نمونہ حیات اور آئیڈیل ہیں۔ ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی اس کی طرح ہو جائے۔ قرآن کریم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نسلِ انسانی کے لیے سب سے بڑا آئیڈیل قرار دیا ہے اور ہم سب کو حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ سے برکتیں اور رحمتیں بھی حاصل کرو، لیکن اس کے ساتھ انہیں فالو بھی کرو، ان کے نقش قدم پر بھی چلو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اصل تعلق اتباع و اطاعت کا ہے، اس لیے ہمیں راہ نمائی کے حصول کے لیے بھی آقائے نامدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں، جن کو ہم سامنے رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے کہ وہ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ ان کے شاگرد حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے ذرا بازار تک لے چلو۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بازار لے گیا۔ وہ بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گئے اور پھر واپس چلنے کا کہا۔ میں انہیں واپس گھر لے آیا اور پوچھا کہ حضرت! آپ بازار کس کام کے لیے گئے تھے؟ فرمایا کہ جس کام کے لیے گیا تھا وہ میں نے کر لیا ہے۔ حضرت نافعؒ نے حیرت سے پوچھا کہ میں بھی تو آپ کے ساتھ تھا، آپ صرف بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گئے ہیں اور پھر واپس آ گئے ہیں، کام تو آپ نے کوئی بھی نہیں کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ میں جب بازار گیا تو کچھ لوگ مجھے ملے، انہوں نے مجھے سلام کہا اور میں نے جواب دیا۔ واپسی پر بھی کچھ لوگ ملے، انہوں نے سلام کہا اور میں نے جواب دیا، بس اسی کام کے لیے میں بازار گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ وہ بازار میں چلتے ہوئے لوگوں کو سلام کہتے تھے اور ان کے سلام کا جواب دیتے تھے۔ میں معذوری کی وجہ سے کئی روز بازار نہیں جا سکا تھا اور اس سنت پر اس دوران عمل نہیں ہوا تھا، آج میں اسی ارادے سے بازار گیا کہ کچھ لوگوں کو سلام کروں گا اور کچھ لوگوں کے سلام کا جواب دوں گا تو اس سنت پر آج عمل ہو جائے گا۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے محبت و عقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ راہنمائی کا پہلو بھی سامنے رکھیں کہ یہی ذکرِ رسول ﷺ کا سب سے بڑا مقصد ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رحمتوں اور اللہ تعالی کرتے ہیں کے ساتھ ہیں اور لیے بھی ہوتی ہے ہے اور کے لیے اور اس گا اور

پڑھیں:

یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی اصل روح محض جانور کے ذبح کرنے کے عمل میں نہیں بلکہ روحانی اطاعت، اخلاقی جرات، اور اللہ کی رضا میں مکمل سرتسلیم خم ہونے میں پوشیدہ ہے۔ اصل فلسفہ اُس مکالمے میں ہے جو ایک باپ اور بیٹے کے درمیان ہوا۔ قرآن مجید سورہ الصافات میں اس مکالمے کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے:’’پھر جب وہ (اسماعیل) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا، تو (ابراہیم نے) کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو دیکھو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے ابا جان! آپ وہی کیجیے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔‘‘ (سورۃ الصافات 102:37)یہ مکالمہ محض ماضی کی ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک لازوال سبق ہے۔ اطاعت، ضبطِ نفس اور ایمان کی فتح کی ایک روشن مثال۔ دنبہ، جو اللہ کی طرف سے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ بطور فدیہ عطا کیا گیا، ایک علامت بن گیا۔ مگر ہم اکثر اصل سبق، اصل روح کو بھول جاتے ہیں یعنی وہ مکالمہ، وہ روحانی سرتسلیم۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے سب سے عزیز کو اللہ کے حکم پر قربان کر دینا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اس پر آمادگی کے ساتھ راضی ہو جانا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل قربانی اپنی خواہشات، اپنی انا، اور اپنی پسند کی اطاعت کو اللہ کی رضا کے تابع کرنا ہے۔ ہم نے دنبے کو یاد رکھا، مگر مکالمہ کو بھلا دیا، جو کہ اصل روحِ قربانی تھا۔آج جب کہ امتِ مسلمہ اور بالخصوص پاکستان، سیاسی عدم استحکام، معاشی زوال، اخلاقی انحطاط اور سماجی ٹوٹ پھوٹ جیسے بحرانوں کا شکار ہے، تو ضروری ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں قربانی کے حقیقی فلسفے کو زندہ کریں۔ ہمارا معاشرہ بدعنوانی، ناانصافی، عدم برداشت اور لالچ سے بوجھل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ہمیں صرف جانور ذبح کرنے کا پیغام نہیں دیتی، بلکہ انا، ناجائز خواہشات، اور طاقت و دولت کی ہوس کو ذبح کرنے کا درس دیتی ہے۔قرآن مجید فرماتا ہے: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ (سورۃ الرعد 11:13)یہ آیت ہمارے موجودہ حالات سے براہِ راست مطابقت رکھتی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو پانا ہے تو اندرونی پاکیزگی ضروری ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ذاتی خواہشات کو اجتماعی فلاح پر قربان کرنا ہوگا۔ ہمارے شہریوں کو بے ایمانی، رشوت، ٹیکس چوری، اور قومی وسائل کے غلط استعمال کو ترک کرنا ہوگا۔ ہر فرد کو سوچنا ہوگا کہ وہ اجتماعی بہتری کے لیے کیا قربانی دے سکتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ انہیں تکلیف دی جائے، بلکہ یہ ان کی مکمل اطاعت اور روحانی پختگی کا امتحان تھا۔ آج پاکستان بھی آزمائش کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا — ہم اللہ کی رضا کے لیے، اور اپنی قوم کی درست سمت میں بحالی کے لیے کیا قربان کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم فرقہ واریت کو اتحاد کے لیے چھوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندی کو امن کے لیے ترک کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ناجائز کمائی کو عدل پر مبنی معیشت کے لیے چھوڑ سکتے ہیں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا:یقیناً جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے، اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ وہ ٹکڑا دل ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)دل کی اصلاح نہایت اہم ہے۔ لالچ، حسد، تکبر جیسے روحانی امراض کو ختم کرنا ہوگا۔ ہماری سیاست کو ریاکاری اور خودغرضی سے پاک کرنا ہوگا۔ ہماری معیشت کو سود اور استحصال سے نجات دینی ہوگی۔ اور ہماری تعلیم میں ایسی اقدار شامل کرنا ہوں گی جو ذمہ داری، سچائی اور خدمتِ خلق سکھائیں۔اگر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ اندھی اطاعت نہیں تھی۔ یہ خواب، مشورہ، فہم، اور پھر مکمل اطاعت پر مبنی تھا۔ اسی طرح پاکستان کو بھی کوئی قدم بغیر ویژن، مشاورت، اور اخلاقی بنیاد کے نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہماری قربانیاں با مقصد ہونی چاہییں — ایک اعلیٰ مقصد کے لیے، جو اسلامی اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق ہو۔قرآن کہتا ہے:نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اللہ تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج 37:22)یہ آیت اس تصور کو ختم کر دیتی ہے کہ قربانی صرف جانور کے ذبح کا نام ہے۔ اصل قربانی تقویٰ ،اللہ کا خوف اور شعور ہے۔ پاکستان کو اس تقویٰ کی اشد ضرورت ہے۔ سرکاری افسران دیانتداری سے کام لیں، تاجر انصاف کے اصولوں کو اپنائیں، علما اخلاص اور اتحاد سے رہنمائی کریں، میڈیا سچ پر مبنی رپورٹنگ کرے، اور نوجوان عارضی خواہشات کو ترک کر کے ملک کی تعمیر میں کردار ادا کریں۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کا مکالمہ ہمیں باپ بیٹے کے درمیان اعتماد، تربیت اور روحانی ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے۔ آج جب خاندانی ڈھانچے کمزور ہو رہے ہیں، تو یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل طاقت ایمان، بات چیت اور باہمی ذمہ داری میں ہے۔ پاکستانی معاشرے کو خاندان کے ادارے کو پھر سے ایمان، مکالمے، اور ذمہ داری پر قائم کرنا ہوگا۔ہم کسی بھی شعبے میں ہوں، ہمیں قربانی کا سبق دل سے اپنانا ہوگا۔ بغیر قربانی ہم بکھرے رہیں گے، قربانی کے ساتھ ہم ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں۔ اصل قربانی اپنی کم تر خواہشات کو اعلیٰ مقاصد کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس صلاحیت یا وسائل نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم آرام، تعیش، شارٹ کٹس، اور خودغرضی چھوڑنے کو تیار نہیں۔اس عید پر، جب امت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرتی ہے، تو پاکستان کو مثال بن کر آگے آنا چاہیے۔ آئیے اُس مکالمے کی روح کو زندہ کریں، سچائی، ایمان اور عزم کے لمحے کو۔ قربانی کے پیغام کو اپنے گھروں، دفاتر، بازاروں اور حکومت تک لے جائیں۔آئیے ہم صرف دنبے کو نہ یاد رکھیں، بلکہ اُس جذبے کو بھی جس نے قربانی کو ممکن بنایا۔ اس برس ہماری قربانیاں باطن کی بھی ہوں، تکبر کے بجائے عاجزی، دھوکے کے بجائے سچائی، تفرقے کے بجائے اتحاد، مایوسی کے بجائے امید۔تب ہی ہم اللہ کی مدد کے مستحق بنیں گے، سماجی ہم آہنگی اور قومی تجدید ممکن ہوگی۔ تب ہی ہماری قربانی اللہ کی نظر میں معنی رکھے گی اور اقوام کی تاریخ میں مقام پائے گی۔ تب ہی پاکستان وہ ملک بن سکے گا جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور جس کے لیے قائداعظمؒ نے جدوجہد کی ایک ایسی قوم جو محض خون سے نہیں، بلکہ ایمان، قربانی اور صداقت سے تعمیر ہوئی ہو۔

متعلقہ مضامین

  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
  • ملتان، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی 
  • مشہد مقدس، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام تقریب 
  • ملتان، خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ کے زیراہتمام امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی کا انعقاد
  • مشہد مقدس، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام شہادت امام باقر علیہ السلام اور رہبر کبیر کی برسی کی تقریب 
  • یہ عید حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے اسوہ حسنہ کی تائید و تجدید ہے،ڈاکٹرعشرت العباد
  • ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت
  • یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ
  • وسیم اکرم کے مجسمہ نے سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان کھڑا کردیا۔
  • یوم عرفہ دعاؤں کی قبولیت، مناجات اور قرب الہی کا افضل ترین دن ہے، حمیرا طارق