چوہدری سالک حسین کا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بطور ریاستی مہمان خیر مقدم، تعاون پر زور
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اپریل2025ء)وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانیز چوہدری سالک حسین نے اوورسیز پاکستانیز کے افتتاحی کنونشن میں اوورسیز پاکستانی شرکا کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور انہیں ریاستی مہمان قرار دیتے ہوئے اتحاد اور تعاون پر زور دیا۔ہفتہ کو اپنے ایک خصوصی ویڈیو پیغام میں وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کی کامیابیوں کو سراہا اور کنونشن میں ان کی فلاح و بہبود کیلئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ملک کی ترقی میں برابر شراکت دار ہیں۔چوہدری سالک حسین نے کہاکہ سمندر پار پاکستانی ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ اور سفیر ہیں جو ہماری قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ وہ قیمتی ترسیلات زر، سرمایہ کاری اور علم کی منتقلی کے ذریعے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف (آج)اتوارسے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے اپنا پہلا انٹرایکشن کنونشن منعقد کر رہے ہیں، جس کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اور پاکستان کی معاشی ترقی میں ان کی مہارتوں اور سرمایہ کاری سے استفادہ کی راہیں تلاش کرنا ہے۔انہوںنے کہاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہماری اولین ترجیح ہیں اور ہمارا مقصد ملک کی ترقی میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ تعاون اور شمولیت کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ روابط بڑھانے کیلئے وزیر اعظم شہباز شریف کی کوششوں کو بھی سراہا۔ چوہدری سالک حسین نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مدد کیلئے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں بیرون ملک مقیم پاکستانی چوہدری سالک حسین نے پر زور دیا انہوں نے کے ساتھ
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔