Express News:
2025-11-05@01:57:40 GMT

بیانیہ کینالز کا

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

وہ بیانیہ جو کبھی اپنی بنیاد نہیں بنا سکتا ،جو غیر فطری ہو،ایسے بیانیہ ہم بنا تو لیتے ہیں مگر وہ بے بنیاد رہ جاتاہے ہیں، چاہے ہم اس بیانیہ کے لیے کتنی ہی تگ ودو کریں یا پھر بہترین ذرایع کا استعمال کریں۔

چھ کینالوں کے حوالے سے اس وقت اندروں سندھ میں ایک تحریک نے زور پکڑا ہے اوربیانیہ کی مثال ہمیں اسی تحریک سے مل جائے گی ۔ یہ ایک الگ بحث کہ ان کینالوں کی منظوری صدر آصف علی زرداری نے پچھلے سال آٹھ جولائی کو ہی دے دی تھی اور صدر صاحب کو اس منظوری کے اختیارات حاصل ہیں بھی کہ نہیں؟

یا پھر اس اس منظوری کے اختیارات صرف مشترکہ مفادات کی کونسل کو ہی ہیں کیونکہ مشترکہ مفادات کی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے،لیکن ہلکی سی بازگشت اس وقت سنی جارہی تھی اور پھر سندھ کے قوم پرستوں نے اس آواز کو اپنے ہاتھوں میں لیا، وہ قوم پرست چھوٹے قد کے لیڈر تھے جن کی آواز نگار خانے میں طوطی کی مانند تھی۔

پھر آہستہ آہستہ یہ آواز سندھی اخباروں میں کالم نگاری کے ذریعے ابھری، ایک بحث چھڑی، سندھی میڈیا کی توسط سے سوشل میڈیا تک رسائی ہوئی اور اس آواز نے تحریک کی صورت اختیارکی۔ پیپلز پارٹی نے اپنا موقف یہی رکھا کہ کینالز نہیں بن رہی ہیں۔ پھر انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم کینالز نہیں بنانے دیں گے،مگر پنجاب حکومت کا بیانیہ کچھ اور تھا۔ وہاں تو مباحثے بھی رک گئے، ارسا نے سر پلس پانی کا سر ٹیفکیٹ بھی جاری کردیا اور اس طرح سے یہ بیانیہ مضبوط ہوتا گیا کہ کینالز بن رہے ہیں۔

ذوالفقار جونیئر جو سندھ میں ماحولیاتی مسائل کی باعث متحرک تھے، اب وہ دریا اور پانی کی تقسیم کو بھی ماحولیات سے جوڑتے ہوئے متحرک ہیں۔سندھ کے وڈیروں کے خلاف پچھلے دو برسوں سے ویسے ہی بیانیہ بنتا رہا، پھر پچھلے سولہ برسوں سے پیپلز پارٹی کی بری حکمرانی!ان تمام حقائق کی بناء پر بڑی تیزی سے کینالوں کا بیانیہ بنایا ،اب سندھ میں اس سے بڑا کوئی بیانیہ نہیں ہے ۔ اس بیانیے کو آخر میں پیپلز پارٹی نے خود سے جوڑنے کی کوشش کی مگر ایسا ہو نہ سکا۔

سندھ میں کینالوں کی بنیاد پر بننے والا بیانیہ آج ایسا ہی ہے جیسا کہ آج سے چالیس سال پہلے کراچی میں بشریٰ زیدی کا تھا جو بس کے نیچے آکر ہلاک ہوئی تھیں۔وہ بات بھی ایسے ہی بڑھی تھی کہ کراچی میں مہاجروں میں ایلیٹ کلاس اور جماعت اسلامی کے پاس جو قیادت تھی، ان کے ہاتھ سے کراچی کی سیاست نکل چکی تھی اور مہاجر قیادت و سیاست متوسط طبقے کے ہاتھوں میں آگئی جو بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئے۔سندھ و قومی اسمبلی کے ممبر بنے اور وفاق میں نمایندگی پائی۔

یہ بیانیہ جو اس وقت سندھ میں کینالوں اور پانی پر بنا ہے، اس کے خدوخال وڈیروں کے خلاف ہیں۔یہ بیانیہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف پچاس سال بعد بنا ہے ۔ اس سے پہلے محور بھٹوخاندان کی شہا دتیں تھیں۔اب جو محور ہے وہ دریائے سندھ ہے جس کا وجود خطرے میں ہے۔بیانیہ کے حوالے سے پیپلز پارٹی اپنا کیس سندھ میں ہار رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی تمام نشستیں روایتی ہیں۔اس بار لوگوں نے ووٹ پیپلز پارٹی کو نہیں دیا تھا بلکہ اس وڈیروں اور جاگیرداروں کو دیا تھا جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی۔اب بھٹو کا نام ان وڈیروں کو ایک چھتری کے نیچے جمع کرنے کا نام ہے۔ آصف زرداری کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ پارٹی بری حکمرانی کے دلدل میں پھنس چکی ہے۔اقرباء پروری انتہا پر رہی۔ کوئی بڑا ترقیاتی کام نہ ہو سکا۔ٹرانسفر اور پوسٹنگ ایک خاص مقصد کے لیے ہوتیں۔یہ پارٹی ، افسر شاہی کے اندر اپنی جڑیں بناتے ہوئے ان من پسند لوگوں کو آگے لائی ،اس طرح کے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ابھرے۔

یہ تمام گرج ، غم و غصہ اور پھر انڈس ڈیلٹا کی صورتحال۔ جب سو سالہ ریکارڈ ہے کہ دریا کبھی بھی اس قدر خشک نہ ہوا جو اس دفعہ ہوا ہے۔خشک سالی ہو رہی ہے۔ان تمام باتوں نے کینالوں کے خلاف بیانیہ کو مضبوط کیا۔پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ اس بیانیہ کا رخ وفاق اور پنجاب کی طرف موڑا جائے اور وہ اس بیانیہ میں بھی رہے۔

مگر لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ وفاق میںسندھ کا کیس پیپلز پارٹی صحیح نہیں رکھ سکی ہے۔یہ تبدیلی جو دہائیوںسے سندھ میں ناگزیر تھی اب جنم لے چکی ہے۔سندھی جن کی نفسیات پر یا تو بھٹو یا پھر پیر اور وڈیرے طاری تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنا ووٹ بھی انھی کو دیا ہے۔بھٹو جن کا نام آہستہ آہستہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے مفاد سے جڑ گیا اور عوام کے مفاد سے کٹ گیا۔بھٹو کا نام اور وڈیرے ایک بن گئے اور عوام اس سفر میں کٹ گئے۔

اب قوم پرستوں کے پاس جو بیانیہ ہے وہ انتخابات کے زمانوں میں ان کو ایوانوں میں لے آئے گا۔سندھ سے ایک بھی قوم پرست ان پچھتر سالوں میں ایوانوں تک نہیں پہنچ سکا اور ایک بھی ایسی نشست نہیں جو سندھ کے عوام نے کسی بیانیہ کی نذر کی ہو سوائے بھٹو۔ مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف کچھ قوم پرست پانی کے بیانیہ کی مدد سے دو چار نشستیں لے کر ایوانوں تک پہنچ سکیں۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی نے کینالوں پر سمجھوتہ ، بلاول بھٹو کو دوسال کے لیے وزیرِ اعظم بنانے کے لیے کیا ہے،لیکن اس بیانیہ پر ابھرتی تحریک سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد میں درڑا پڑ سکتی ہے ۔

اب یہ اتحاد انتہائی غیر فطری نظر آ رہا ہے۔مجبور ہوکر پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں قرارد داد جمع کرنے کی کوشش کی لیکن کرا نہ سکی۔جب کہ پی ٹی آئی نے کینالوں کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کر وادی اور اگر پیپلز پارٹی اس قرار داد کی حمایت نہیں کرتی تو ان کا سندھ سے خاتمہ ہو جائیگا اور اگر پیپلز پارٹی اس قراداد کی حمایت کرتی ہے تو شہباز شریف کی حکومت کے لیے منفی پوائنٹ ہوگا۔

اس بیانیہ کے ثمرات سندھ میں آیندہ دو چار برسوں میں ملیں گے۔پہلی بار ایک نئی قیادت سندھ سے بنے گی جس کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں ہوگا۔بلاول بھٹو تک پہنچتے پہنچتے سندھ میں پارٹی اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی جس بیانیہ پر چلی وہ بیانیہ سندھ اور پنجاب میں یکساں تھا اور اس دفعہ پارٹی نے یہ چا ہا کہ اس بیانیہ کو جو سندھ اور پنجاب میں بنا رہا ہے اپنے انداز سے لے کر چلے۔

اب اس ملک میں ایسا کوئی لیڈر نہیں جو بے نظیر کی طرح چاروں صوبوں کی زنجیر ہو، بانی پی ٹی آئی اپنے آپ کو کینالوں کے بیانیہ سے جوڑ کر شہباز شریف کی حکومت کے خلاف مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ یہ تحریک صرف سندھ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی نے کینالوں کے اس بیانیہ بیانیہ کی کے خلاف کے لیے کا نام ا ہستہ

پڑھیں:

18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے، اس پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، شازیہ مری

پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ن لیگ کے ساتھ عوامی ایشو پر بات کریں گے، 27ویں آئینی ترمیم کو عوامی اعتبار سے بھی دیکھا جائے گا، پیپلز پارٹی تمام چیزیں اپنے اصولی موقف پر دیکھے گی، اگر حکومت کسی چیز پر متفق ہے اور ہمیں متفق کرنا چاہتی ہے تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان شازیہ مری نے کہا کہ 18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے اور اس پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ کافی عرصے سے 27ویں ترمیم کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں، تاہم حکومت نے باقاعدہ پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رابطہ کیا ہے اور ترمیم پر حمایت مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کے اختیارات پر پیپلز پارٹی نے اتفاق رائے پیدا کیا، 18ویں ترمیم میں صوبوں کے اختیارات سے پیچھے ہٹنا مناسب بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے، اس پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت کے پرپوزل کو پیپلز پارٹی کی سی ای سی کمیٹی میں رکھا جائے گا اور سی ای سی میں فیصلے کیے جائیں گے۔ شازیہ مری نے مزید کہا کہ ن لیگ کے ساتھ عوامی ایشو پر بات کریں گے، 27ویں آئینی ترمیم کو عوامی اعتبار سے بھی دیکھا جائے گا، پیپلز پارٹی تمام چیزیں اپنے اصولی موقف پر دیکھے گی، اگر حکومت کسی چیز پر متفق ہے اور ہمیں متفق کرنا چاہتی ہے تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی ڈاکوئوں کی سرپرستی بند کر ے، جئے قومی محاذ
  • 27ویں ترمیم میں صوبائی اختیارات رول بیک نہیں ہونے دیں گے، آغا رفیع اللّٰہ
  • پیپلز پارٹی کے بغیر کوئی بھی آئینی ترمیم نہیں ہوسکتی، طلال چوہدری
  • پیپلز پارٹی کے بغیر کوئی بھی ترمیم نہیں ہوسکتی، طلال چوہدری
  • 18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے ، سمجھوتہ ناممکن، شازیہ مری
  • 18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے، اس پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، شازیہ مری
  • شہباز شریف نے آصف علی زرداری سے 27 ویں ترمیم پر حمایت مانگی ہے: شازیہ مری
  • پیپلز پارٹی آئینی عدالت پرمتفق، میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں،رانا ثناء
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے: حافظ نعیم