جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر پروفیسر خورشید احمد انتقال کرگئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر پروفیسر خورشید احمد 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق پروفیسر خورشید احمد کا انتقال برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہوا۔
مرحوم پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر ، سینیٹر اور رکن قومی اسمبلی بھی رہے جب کہ وہ معاشی امور کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔
جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن، سابق امیر سراج الحق، سینیٹر مشتاق احمد سمیت دیگر رہنماؤں نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔
جماعت اسلامی سندھ کے فیس بک پر جماعت کی جانب سے جاری کردہ پوسٹ میں کہا گیا ’سابق سینیٹر کی رحلت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے‘۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اپنی پوسٹ میں لکھا’ پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد، ایک مفکر، ادیب، ماہر معیشت، سیاستدان، بے بدل پارلیمنٹرین، تحریک اسلامی عظیم قائد اللہ کے حضور پہنچ گئے’۔
مشتاق احمد نے مزید لکھا ’وہ سینیٹ آف پاکستان میں کارکردگی کا غیر معمولی ریکارڈ رکھتے تھے، اللہ حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین‘۔
سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’سابق ناظم اعلی اسلامی جمیعت طلبہ پاکستان، نشان امتیاز پروفیسر خورشید احمد وفات پا گئے، اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
مختصر تعارف وخدمات
پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932 کو دہلی میں پیدا ہوئے، قانون، اسلامیات، اور معاشیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں تدریس و تحقیق کے ذریعے علم و دانش کے فروغ میں مصروف ہوگئے۔
پروفیسر خورشید احمد کو 1978 میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی مقرر ہوئے اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
پروفیسر خورشید احمد کو اقتصادیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی ترقیاتی بینک نے 1988 میں اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا تھا۔
بین الاقوامی اسلامی خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے 1990 میں انہیں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا جب کہ انہیں 1998 میں امریکن فنانس ہاؤس کا ’لاربوٰ پرائز‘ ایوارڈ بھی دیا گیا۔
پروفیسر خورشید احمد اردو اور انگریزی میں 70 سے زائد کتب کے مصنف تھے، انہوں نے متعدد بین الاقوامی رسائل و جرائد کی ادارت بھی کی۔
ان کے قائم کردہ اداروں میں ’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد‘ اور ’اسلامک فاؤنڈیشن، لیسٹر (برطانیہ)‘ شامل ہیں، جو آج بھی ان کے فکری ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
مزیدپڑھیں:چینی ساختہ الیکٹرک گاڑی ’ڈونگ فینگ بکس‘ پاکستان میں لانچ، قیمت کیا ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے میں اعلی
پڑھیں:
سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
واشنگٹن (نیوز ڈیسک )عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ خاندان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈک چینی پیر کی رات نمونیا اور دل و خون کی نالیوں کی بیماریوں کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب وفات پا گئے۔ریپبلکن رہنما — جو وائیومنگ کے سابق کانگریس مین اور وزیرِ دفاع رہ چکے تھے — اس وقت پہلے ہی واشنگٹن کی طاقتور شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے جب اُس وقت کے ٹیکساس کے گورنر جارج ڈبلیو بش نے انہیں 2000 کی صدارتی انتخابی مہم میں اپنا ساتھی اُمیدوار (رننگ میٹ) منتخب کیا تھا، جس میں بش کامیاب ہوئے تھے۔
2001 سے 2009 تک نائب صدر کی حیثیت سے، چینی نے صدارتی اختیارات کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ ان کا خیال تھا کہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے بعد، جس کی وجہ سے ان کے سابق باس رچرڈ نکسن اقتدار سے محروم ہوگئے تھے، صدر کے اختیارات کمزور ہو گئے تھے۔
انہوں نےایک قومی سلامتی کی ٹیم تشکیل دے کر جو اکثر انتظامیہ کے اندر خود ایک علیحدہ طاقت کا مرکز بن جاتی تھی، نائب صدر کے دفتر کے اثر و رسوخ کو بھی بڑھایا۔
چینی 2003 میں عراق پر حملے کے پُرزور حامی تھے اور وہ بش انتظامیہ کے ان نمایاں اہلکاروں میں شامل تھے جنہوں نے عراق کے مبینہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذخیرے سے لاحق خطرے کے بارے میں سخت ترین انتباہات دیے۔ تاہم، ایسے کوئی ہتھیار کبھی نہیں ملے۔
انہوں نے بش انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدیداروں سے اختلافات بھی کیے، جن میں وزیرِ خارجہ کولن پاول اور کونڈولیزا رائس شامل تھے۔ ڈک چینی نے دہشت گردی کے مشتبہ افراد سے تفتیش کے لیے “بہتر یا سخت تفتیشی طریقے” — جیسے پانی میں ڈبونا (واٹر بورڈنگ) اور نیند سے محرومی — کا دفاع کیا۔
دوسری جانب، امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی و انسانی حقوق سمیت کئی اداروں نے ان طریقوں کو “تشدد” قرار دیا۔
ان کی بیٹی، لِز چینی، بھی ایک بااثر ریپبلکن رکنِ پارلیمنٹ بنیں، جو ایوان نمائندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز) کی رکن رہیں۔ تاہم، انہوں نے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور 6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں کے کیپٹل پر حملے کے بعد اُن کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے پر اپنی نشست کھو دی۔
ان کے والد نے بھی لز کے مؤقف سے اتفاق کیا اور اعلان کیا کہ وہ 2024 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے۔
ڈک چینی، جو طویل عرصے سے بائیں بازو کے سخت ناقد رہے، نے کہا تھا: “ہماری قوم کی 248 سالہ تاریخ میں، کوئی بھی شخص ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں رہا۔”
چینی اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں دل کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔ 37 سال کی عمر میں انہیں پہلا دل کا دورہ پڑا، اور 2012 میں ان کا دل کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
عراق پر حملے کے پرزور حامی
چینی اور اُس وقت کے وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ — جو نِکسن وائٹ ہاؤس میں اُن کے ساتھی رہ چکے تھے — مارچ 2003 میں عراق پر حملے کے لیے دباؤ ڈالنے والی مرکزی آوازوں میں شامل تھے۔
جنگ کے آغاز سے پہلے کے عرصے میں، ڈک چینی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ممکن ہے عراق کا تعلق القاعدہ اور 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر ہونے والے حملوں سے ہو۔ تاہم، 9/11 حملوں کی تحقیقاتی کمیشن نے بعد میں اس نظریے کو بے بنیاد قرار دیا۔
ڈک چینی نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی افواج کو عراق میں “آزادی دلانے والوں” کے طور پر خوش آمدید کہا جائے گا، اور ان کے مطابق فوجی کارروائی “نسبتاً تیزی سے” مکمل ہو جائے گی — “ہفتوں میں، مہینوں میں نہیں”۔
اگرچہ تباہی پھیلانے والے کوئی ہتھیار نہیں ملے، مگر بعد کے برسوں میں ڈک چینی اس موقف پر قائم رہے کہ اُس وقت دستیاب خفیہ معلومات کی بنیاد پر اور عراقی صدر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے، حملہ درست فیصلہ تھا۔
ایک دہائی سے زیادہ قبل، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں وزیرِ دفاع کی حیثیت سے، چینی نے پہلی خلیجی جنگ میں کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کے لیے امریکی فوجی کارروائی کی قیادت کی تھی۔
انہوں نے اُس وقت کے صدر بش سینئر پر زور دیا کہ وہ عراق کے خلاف سخت مؤقف اپنائیں، جب صدام حسین نے اگست 1990 میں کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم، اُس وقت چینی عراق پر حملے کے حامی نہیں تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو اُسے اکیلے کارروائی کرنا پڑے گی، اور یہ صورتحال ایک طویل دلدل بن جائے گی۔
چینی کے بش خاندان کے ساتھ طویل تعلقات اور حکومتی تجربے کی بنا پر، جارج ڈبلیو بش نے 2000 میں انہیں نائب صدر کے امیدوار کی تلاش کی سربراہی کے لیے منتخب کیا۔ لیکن بعد میں بش نے فیصلہ کیا کہ تلاش کرنے والا ہی اس منصب کے لیے بہترین امیدوار ہے۔
سیاست میں دوبارہ واپسی پر، ڈک چینی کو تیل کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہیلیبرٹن سے 35 ملین ڈالر کا ریٹائرمنٹ پیکج ملا، جس کے وہ 1995 سے 2000 تک سربراہ رہے تھے۔
عراق جنگ کے دوران ہیلیبرٹن حکومت کے بڑے ٹھیکیداروں میں شامل ہو گئی، اور چینی کے تیل کی صنعت سے تعلقات جنگ کے مخالفین کی جانب سے بار بار تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔