نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اکثریتی ذہنیت کی پیدوار ہے، جسکا مقصد مسلمانوں کے صدیوں قدیم مذہبی اور فلاحی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے مسلم تنظیموں کی دہلی میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔ وقف ترمیمی ایکٹ پر جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ ملک، سماج یا مسلمانوں کے لئے صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی جاری رہے گی، ختم نہیں ہوگی، خواہ ہمیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ وقف کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی ہتھیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی مسلمانوں کے نام پر، کبھی مسلمانوں کو گالی دے کر یا مسلمانوں کا ہمدرد بن کر بد دیانتی کے ارادے کے ساتھ اس ایکٹ کو نافذ کیا گیا ہے، یہ ایکٹ یا ترمیم ملک، سماج یا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے۔
مولانا محمود مدنی نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ہماری لڑائی جاری رہے گی، ختم نہیں ہوگی، خواہ ہمیں کتنی بھی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آزادی سے قبل بھی قربانیاں دی ہیں، اگر ہمیں لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے، اگر ہمیں صبر کرنا ہے تو ہم وہ بھی کریں گے، ہم ہر صورتحال کے لئے تیار ہیں اور ہم انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے پُرامن احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے خلاف ہر جگہ پُرامن احتجاج ہونے چاہیئے۔ واضح ہو کہ اس سے قبل مولانا محمود مدنی نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) داخل کی گئی ہے، جس میں قانون کی آئینیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
عرضی میں جمیعۃ علماء ہند نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں ایک نہیں بلکہ کئی آرٹیکل کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ خاص طور سے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29 اور 300 اے کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی حقوق اور شناخت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اکثریتی ذہنیت کی پیدوار ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے صدیوں قدیم مذہبی اور فلاحی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون اصلاحی اقدام کے نام پر امتیازی سلوک کا علمبردار ہے اور ملک کے سیکولر تشخص کے لئے خطرہ ہے۔ مولانا محود مدنی نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو غیر آئینی قرار دیں اور اس کے نفاذ پر فوری طور پر روک لگایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مولانا محمود مدنی نے وقف ترمیمی ایکٹ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے نے کہا کہ یہ نہیں ہے کے لئے
پڑھیں:
ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ دوم)
گزشتہ بار افریقی نوجوانوں میں مقبول گنی بساؤ کے صدر کیپٹن ابراہیم ترورے کی سوشل میڈیا پر وائرل تقریر کا پہلا حصہ پیش کیا گیا۔یہ دوسرا حصہ پڑھیے اور اگلی بار تیسرا اور آخری حصہ۔
میرے افریقیو ،
گھانا تا زیمبیا اور سینیگال تا کینیا ایک ہی ڈرامہ چل رہا ہے۔حکومتوں کو پانی کی نجکاری پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ غیر ملکی کمپنیاں منافع کما سکیں۔سستی درآمدات کے ذریعے کسانوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔مقامی صنعتوں پر پھلنے سے پہلے ہی قاتلانہ حملہ ہو جاتا ہے۔مشورہ دیا جاتا ہے کہ بجٹ کو متوازن بنانے کے لیے ترقیاتی بجٹ کم کریں تاکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائی بروقت ہو سکے۔
عجیب بات ہے کہ یہ ادائی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔اگر ہم اس کے خلاف مزاحمت کی جرات کریں ، آپ کے تجویز کردہ نسخوں پر سوال اٹھائیں یا تجاویز نہ مانیں تو ہم بلیک لسٹ ہو جاتے ہیں ، ہماری کریڈٹ ریٹنگ نیچے آ جاتی ہے ، ہماری کرنسی کی قدر پر حملہ ہوتا ہے اور ہمارے رہنماؤں کو نام نہاد بین الاقوامی میڈیا انتہا پسند ، سنکی اور پاپولسٹ قرار دے کر مطعون کرتا ہے۔
اس سے بڑی انتہاپسندی کیا ہوگی کہ ایک ملک کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے عوام کا پیٹ بھرنے سے پہلے قرض کا سود چکانے کی فکر کرے۔ چنانچہ ہماری نئی نسل کا اپنے روزگاری مستقبل اور سیاست پر سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ ان کی قیادت عوام کو جواب دینے سے پہلے بینکوں کو جوابدہ ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کو بھی ویٹو کرتے ہو۔آپ افریقی پالیسی بنانے والے غیر منتخب گورنر ہو۔ ہم کب تک برداشت کریں کہ ہمیں ہی دیے گئے قرضوں سے بھاری مشاہرہ پانے والے بین الاقوامی مشیر ہماری پالیسیاں بنائیں جب کہ ہمارے اساتذہ کو تنخواہ کے لالے پڑے ہوں۔ہم ان اداروں کے آگے مزید کیوں جھکیں جو ہمارے شہریوں کے بجائے اپنے شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں۔
میں آئی ایم ایف سے صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنا اقتدارِ اعلیٰ واپس لینا چاہتے ہیں بھلے اس کا مطلب آپ کے قرضوں کے بغیر ہماری شرح ترقی میں سست رفتار اضافہ کی کیوں نہ ہو۔مگر تب یہ ہماری شرحِ ترقی ہو گی۔وقتی تکلیف تو ہو گی مگر یہ آزاد ہونے کا درد ہو گا۔افریقہ کو آقا نہیں شراکت دار چاہئیں۔
ہم اس نظام میں پیدا ہوئے ہیں جو ہم نے نہیں بنایا۔یہ نظام معاہدوں ، من مانے قوانین اور اداروں کا جال ہے۔جب نوآبادکار رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے شفافیت کے بجائے ایسا نظام چھوڑ گئے جو انھیں مسلسل فائدہ پہنچاتا رہے۔
مسئلہ صرف آئی ایم ایف میں اصلاحات کا نہیں بلکہ تجارتی ، مالیاتی ، قرضہ جاتی قوانین کے ڈھانچے میں سدھار کا ہے۔موجودہ مالیاتی ڈھانچہ خدائی یا فطری منصوبہ نہیں بلکہ طاقتور انسانوں کا مسلط کردہ ہے۔ وہی طاقت ور تعین کرتے ہیں کہ کس شے کی کیا قیمت ہو اور کسے ملنی چاہیے۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایسا براعظم جس کی ساٹھ فیصد زمین زرخیز ہے اب تک خوراک میں خود کفیل کیوں نہیں ؟ ہم سونے ، ہیروں ، تیل اور لیتھیم کے ذخائر پر بیٹھنے کے باوجود بھی محتاج کیوں ہیں ؟ کیونکہ کھیل کبھی شفاف نہیں تھا۔
ہمیں صنعتی مصنوعات بنانے کے بجائے خام مال پیدا کرنے والے خطے میں تبدیل کر دیا گیا۔ہمیں عالمی معیشت میں ایک مخصوص کردار دیا گیا جیسے کسی المیہ کھیل میں اداکار کو دیا جاتا ہے۔یعنی تم صرف اگاؤ گے ، پروسیسنگ ہم کریں گے ، تم ہاتھ پھیلاؤ گے ہم قرضہ دیں گے۔جب بھی ہم اس کھیل کا اسکرپٹ دوبارہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو جرمانہ بھرنا پڑتا ہے ، کریڈٹ ایجنسیز ہماری ریٹنگز گھٹا دیتی ہیں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لابی پابندیوں کی دھمکی دیتی ہے ، ہائی ٹیک کمپنیاں اپنا سرمایہ نکال لیتی ہیں۔آپ کا میڈیا ہمیں پاگل کہتا ہے۔
مگر اس سے زیادہ غیر مستحکم دنیا اور کیا ہو گی کہ ایک اعشاریہ چار ارب انسانوں کا براعظم ماحولیات کی ابتری میں سب سے کم اور اس کے نقصانات میں سب سے زیادہ حصہ دار ہے۔اس سے زیادہ غیر منطقی کیا ہو گا کہ پوری دنیا کے لیے کوکا اگانے والے کسان خود اپنے بچوں کے لیے چاکلیٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔اس سے بڑی ناانصافی کیا ہو گی کہ جن ممالک نے ہمیں ماضی میں نوآبادی بنایا آج وہی ہمیں گڈ گورننس کا لیکچر دے رہے ہیں اور دوسری جانب افریقی اشرافیہ کی چرائی ہوئی دولت بنا کوئی سوال پوچھے اپنے بینکوں میں رکھ رہے ہیں۔اور وہ اس نظام کو میریٹوکریسی بھی کہتے ہیں۔
وہ ہم سے کہتے ہیں محنت کرو ، شفاف بنو اور مزید سرمایہ کاری کے مواقع بڑھاؤ۔مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ عالمی تجارتی قوانین کبھی بھی شفاف نہیں رہے۔ عالمی ادارہِ تجارت ( ڈبلیو ٹی او ) عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ریفریز انھیں ٹیموں کے طرف دار ہیں جو ہمیشہ جیتتی ہیں۔
مثلاً جب ہم نے اپنے کسانوں کو سبسڈی دینے کی کوشش کی تو ہمیں کہا گیا کہ اس سے کھلی مارکیٹ پر منفی اثر پڑے گا۔مگر امریکا اور یورپ اپنے کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دے رہے ہیں اور اسے تحفظ کا نام دیتے ہیں۔جب ہم نے روزگار پیدا کرنے کے لیے سرکاری شعبے میں صنعتیں لگانے کی کوشش کی تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے معاشی جمود بڑھے گا۔جب کہ ان کی امیر ترین نجی کارپوریشنز سرکاری پیسے سے چلنے والے ناسا ، سرکاری جنگوں ، سرکاری ٹھیکوں اور سرکاری ریسرچ اداروں کی تحقیق سے پورا تجارتی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔جب ہم کانکنی کے استحصالی معاہدوں پر نظرِ ثانی کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم کاروبار دشمن ہیں۔مگر اس سے بڑی دشمنی کیا ہو گی کہ آپ سو ڈالر مالیت کی معدنیات نکالیں اور ہمیں تین ڈالر رائلٹی دے کر چلتے بنیں۔
افریقہ آپ سے رحم کھانے کو نہیں کہہ رہا۔ہم صرف شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ہم خیراتی اترن نہیں برابری چاہتے ہیں۔ہم اس کرہِ ارض کا سب سے توانا براعظم ہیں۔مگر عالمی معیشت ہم سے ایسا سلوک کر رہی ہے جیسے ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں۔ ہمارے مزدور ، ہماری زمین ، ہماری اقدار ناقص نہیں بلکہ نظام ناقص ہے۔ہم آپ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتے مگر مزید زنجیریں پہننے کو تیار نہیں۔
ہم سنکارا ، نکروما ، لوممبا اور منڈیلا کے بچے ہیں۔ محض زندہ رہنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔۔اس کے لیے اب ہمیں کسی کی اجازت اور افریقہ کو اب کوئی نیا نجات دھندہ یا تازہ لیکچر یا جکڑبند قرضہ نہیں چاہیے۔ہم خود کو تمہارے برابر تسلیم کروانے کے لیے خوشامد نہیں کریں گے۔ہم شراکت داری کے خلاف نہیں مگر ہم اس کی شرائط ازسرِنو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
کوئی ملک بااختیار نہیں کہلا سکتا اگر اپنے لوگوں کا پیٹ نہ بھر سکے۔ہم کیسے آزاد کہلا سکتے ہیں جب کسی جگہ پڑنے والا قحط ہماری روٹی کی قیمت طے کرے۔نوآبادیاتی نظام نے جو سب سے خطرناک ترکہ چھوڑا وہ بندوق نہیں بلکہ سلیبس ہے۔ایسا نصاب جو ہمیں غیر ملکی بادشاہوں کے بارے میں تو خوب بتاتا ہے مگر ہمارے ہیروز کو نظرانداز کرتا ہے۔نصاب میں غیر ملکی فلسفیوں کی تعریف ہے مگر افریقی دانش کا ذکر غائب ہے۔
ہمیں تعلیمی سلیبس دوبارہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہو سکیں۔اپنی تاریخ پر فخر کر سکیں اور اعتماد کے ساتھ تخلیقی قوت استعمال کر سکیں۔بچوں کو کوڈنگ ضرور سکھائیں مگر علمِ زراعت بھی پڑھائیں۔ہمارے اسکول آزادی کی لیبارٹری ہونے چاہئیں۔ تعلیم محض امتحان میں کامیابی تک محدود نہ ہو بلکہ اپنی قسمت خود تعمیر کرنے کے قابل بنا سکے۔
ہمارا جو خام مال باہر جاتا ہے وہی خام مال کھلی تیار مصنوعات کی شکل میں دس گنا قیمت پر ہمیں لوٹایا جاتا ہے۔ہمیں مقامی صنعت کاری اور ایجاد پسندی کی جانب آنا ہو گا۔صرف معدنیات کی ملکیت کافی نہیں۔منافع کمانے کے لیے ہمیں دھاتوں کی ریفائننگ اور پیکیجنگ کی اپنی صنعت چاہیے۔ہمیں افریقی سرمایہ کاری اور نوزائیدہ صنعتوں کو تحفظ دینا ہو گا اور غیرضروری اشیا کی درآمدی عادت کو کم کرنا ہو گا۔یہی ایک طریقہ ہے روزگار پیدا کرنے اور افریقہ کی دولت افریقیوں کے لیے استعمال کرنے کا۔
منقسم افریقہ ہمیشہ کمزور رہے گا۔ہم چون ممالک الگ الگ آوازوں کی شکل میں دنیا سے اجتماعی سودے بازی نہیں کر سکتے۔ہمیں سیاسی ، اقتصادی ، دفاعی اور سائنسی تعاون کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔اس کے لیے بین ال افریقہ ادارہ سازی کرنا ہو گی۔ہم تب تک آزاد نہیں ہو سکتے جب تک مقامی دانش پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھیں گے۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)