Islam Times:
2025-11-05@02:26:55 GMT

گلگت بلتستان حکومت کا احتساب ضروری ہے، حفیظ الرحمن

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

گلگت بلتستان حکومت کا احتساب ضروری ہے، حفیظ الرحمن

سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے ایک بیان میں کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے 800 ملین روپے وزیر اعلی کے بلاک ایلوکیشن کی مد میں وزیر اعلی کے اختیار کے فنڈز کو گلگت بلتستان سے کوہستان تک وزیر اعلی کے دوستوں میں حفاظتی بند، کلوٹ اور دیگر مرمتی معاملات کے نام پر تقسیمِ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے ساتھ بدترین مذاق کے مترادف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر اعلیٰ و صدر مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ حکومتی چھتری تلے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کو نوچا جا رہا ہے۔ بدترین نااہلی اور کرپشن کے معاملات منہ کھولے اداروں کی توجہ کے منتظر ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کے 800 ملین روپے وزیر اعلی کے بلاک ایلوکیشن کی مد میں وزیر اعلی کے اختیار کے فنڈز کو گلگت بلتستان سے کوہستان تک وزیر اعلی کے دوستوں میں حفاظتی بند، کلوٹ اور دیگر مرمتی معاملات کے نام پر تقسیمِ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے ساتھ بدترین مذاق کے مترادف ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام پانی، بجلی اور دیگر بنیادی سہولتوں کیلئے دربدر ہیں اور نااہل وزیر اعلیٰ دوستوں کو نوازنے کیلئے اپنے صوابدیدی ترقیاتی فنڈز کو نواز رہے ہیں جو کہ ناقابل برداشت عمل ہے۔گلگت بلتستان کے ادارے ہوش کے ناخن لیں، اپنی اولین زمہ داریاں ادا کریں۔ حقائق جاننا عوام کا بنیادی حق ہے۔ 800 ملین کے یہ فنڈز گلگت بلتستان کے عوام کی ملکیت ہیں۔ وزیر اعلی نے صوابدید کے نام پر جو سکیمیں دی ہیں اور جن شخصیات کو دی گئی ہیں ان کو فوری طور پر عوام کے سامنے لایا جائے۔

سابق وزیر اعلیٰ و صدر مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے مزید کیا کہ موجودہ صوبائی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی نمائندہ حکومت نہ ہونے کے باعث خود کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ 18 ماہ کی حکومت میں یہ عناصر اپنا حکومتی ایجنڈا عوام کے سامنے نہیں لا سکے۔ وزیراعلی اور وزراء کی حکومتی مصروفیات کے بارے میں عوام کو کوئی خیر خبر نہیں رہتی جو کہ بڑا المیہ ہے۔صوبائی حکومت اور وزراء حکومتی کارکردگی سے دور مالی وارداتوں میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ اور موجودہ حکومت کا چار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے وفاقی حکومت سے ڈویلپمنٹ اور نان ڈویلپمنٹ کے نام پر کھربوں روپے حاصل کئے گئے ہیں۔ نتیجے میں نہ کوئی منصوبہ نمایاں نظر آرہا ہے اور نہ کارکردگی کے آثار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں موجودہ چار سالوں کی حکومت کا احتساب وقت کی ضرورت ہے۔ تحقیقاتی اداروں کو اپنی زمہ داریاں ادا کرنی ہونگی۔ گلگت بلتستان کے عوام کے وسائل کسی بھی طرح کے طالع آزماؤں کو ہڑپنے نہیں دیں گے۔ حقائق جاننا عوام کا فرض ہے، مسلم لیگ (ن) اپنا عوامی فریضہ ادا کرتی رہے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کے عوام کے وزیر اعلی کے کے نام پر نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی

گلگت:

سن 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔

غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔

غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔

غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔

غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
  • معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
  • گلگت بلتستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہیں: امیر مقام
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب
  • گلگت، پی ٹی آئی فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید پیپلزپارٹی میں شامل
  • گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کیلئے ایوان صدر میں اہم اجلاس طلب
  • ایس سی او ویژن 2025، گلگت بلتستان میں جدید ترین 100 آئی ٹی سیٹ اپس قائم
  • فیلڈ مارشل کو سلام، گلگت بلتستان کو ترقی کے تمام مواقع دیئے جائینگے: صدر زرداری