Express News:
2025-09-18@15:55:30 GMT

جمہوریت اور موروثیت

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز اور رائے دہندگان کو اپنے منشور، نظریات، جمہوری اقدار اور قومی سیاست میں اپنے فعال و مثبت کردار کے حوالے سے اپنا حامی بنا کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور جیت کر اقتدار کے ایوانوں میں آتی ہیں۔

مہذب، باوقار، اصول پسند اور جمہوریت کے علم بردار معاشروں میں سیاسی جماعتیں حکومت حاصل کرنے کے بعد نہ صرف اپنے منشور کے مطابق عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کو ترجیح دیتی ہیں بلکہ ملکی وقار، عزت اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا مثبت، تعمیری اور جمہوری کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکی مصنف میک آئیور (Macivor) لکھتا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشور کا باقاعدہ بیان ممکن نہیں۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ نہ ہی وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کرسکے۔‘‘

ایک سنجیدہ، متحرک اور بااصول جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف جمہوری رویوں کو فروغ اور استحکام ملتا ہے بلکہ ملک کے سیاسی نظام کو قاعدے اور قرینے کے ساتھ باوقار انداز میں آگے بڑھانے اور جمہوری تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عوام اپنے محبوب اور پسندیدہ سیاسی لیڈر کو اس کے سیاسی فکر و فلسفے، نظریات، منشور اور اس کے قول و فعل کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی قیادت کا عروج، نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قائدین کا عوام سے تعلق اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔

وطن عزیز میں چھوٹی بڑی کم و بیش 50 کے قریب سیاسی جماعتیں جو قومی سیاست میں سرگرم ہیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت العلما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ سیاسی جماعتوں میں سے دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ نصف صدی کے دوران ایک سے زائد مرتبہ اقتدار میں آچکی ہیں۔ آج بھی انھی دو جماعتوں کے اشتراک سے ملک میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے قیام، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی دعوے دار ہیں، لیکن ان جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ موروثیت کا غلبہ حاوی نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں یہی صورتحال ہے۔ ان جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شریف اور بھٹو فیملی کے سوا کوئی دوسرا سیاسی رہنما پارٹی کے اہم ترین منصب پر مقابلے میں حصہ نہیں لیتا۔ پارٹی قیادت انھی دو خاندانوں کے نام لکھی جا چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات میں بلاول دوسری مرتبہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ آصف زرداری بدستور پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ آج بلاول بھٹو اپنے نانا، والدہ اور والد کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ مفاہمتی سیاست کے تمام گُر انھوں نے اپنے والد سے سیکھے ہیں جس کا مظاہرہ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر کیا۔

بلاول بھٹو کی مساعی ہی سے مولانا فضل الرحمن 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے۔ پی ٹی آئی سے مفاہمت و بات چیت کے لیے انھوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ قومی سیاست میں بلاول بھٹو جس سنجیدگی، احتیاط و اعتدال کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں وہ ان کے سیاست میں ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو کی صلاحیتیں اور عوام میں ان مقبولیت انھیں وزیر اعظم کے منصب جلیلہ تک لے جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا اکابرین سیاست اپنی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت نافذ کریں گے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی جماعتوں کے بلاول بھٹو میں سیاسی سیاست میں

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی:۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ملائشیا سے واپسی پر سینئر صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کی ابتر حالت پر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی کی صوبے میں 17سالہ حکمرانی کے باعث کراچی کے رہنے والے بدترین حالات اور شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں، پیپلز پارٹی نا اہل بھی ہے اور کرپٹ بھی، گزشتہ 15سالو ں میں کراچی کی ترقی کے 3360 ارب روپے کھائے گئے، کراچی کی تعمیر و ترقی کا صرف یہی ایک راستہ ہے،مقامی حکومتوں کو با اختیار بنایا جائے۔

سپریم کورٹ کے حکم اور آرٹیکل 140-Aکے مطابق اختیارات و وسائل نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں، کراچی میں ووٹ کی چوری کو معاف نہیں کیا، آئندہ ووٹ کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں گے، ملک میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کا اصول اور طریقہ کار اپنانا چاہیے،لینڈ ریفارمز بھی بہت ضروری ہیں۔پاکستان میں سیاست کا المیہ یہ ہے کہ سیاسی تحریکیں ہائی جیک ہو جاتی ہیں، سیاسی رہنما اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیتے ہیں۔

ان حالات میں جماعت اسلامی واحد جمہوری جماعت اور حقیقی اپوزیشن ہے،جماعت اسلامی عام لوگوں کی جماعت اور عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہے، ہم پاکستان کے لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے، پاکستان میں سیاسی استحکام کی منزل دور ضرور لیکن عوام کی مدد سے حاصل کر کے رہیں گے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال نازک معاملہ ہے، پنجاب میں بلوچستان کے لیے لانگ مارچ بڑا بریک تھرو تھا، جماعت اسلامی کوئٹہ، جعفرآباد اور گوادر میں بنو قابل پروگرام شروع کر رہی ہے، سندھ میں وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر پی پی کا ساتھ دے رہا ہے۔

سندھ کے نوجوانوں میں سوشل میڈیا کی بدولت بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے، کے پی کے میں پی ٹی آئی کے طویل اقتدار میں مافیاز پروان چڑھے، پنجاب میں ایک روٹی، دو کباب کی حکومتی امداد کے پیچھے بھی خودنمائی کی تحریک نظر آتی ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ افغانستان سے پر امن تعلقات چاہتے ہیں، ڈائیلاگ ہونے چاہییں، افغانستان کو بھی سمجھنا چاہیے، وہاں سے دراندازی بند ہونی چاہیے، بہرحال دو طرفہ ملکی تعلقات میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

21-22-23نومبر کو لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام ہو گا، اسی میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان ہو گا،اجتماع عام میں خواتین، یوتھ، بزنس کمیونٹی، بین الاقوامی تنظیموں و اسلامی تحریکوں کے سیشن ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟