جدید عہد میں میرا انتخاب فقہِ جعفری ہی کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: وہ الہیٰ علم، جو انسانی تاریخ میں وحی، نبوت اور ولایت کی صورت میں مسلسل منکشف ہوتا رہا، نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں امام علیؑ کی شکل میں باب العلم و بطورِ علمِ لدنّی جلوہ گر ہوا اور جب یہی علم امام جعفر صادقؑ کے توسط سے منظم و مدوّن ہوا تو فقہِ جعفری کہلایا، یوں یہ فقہ دراصل علمِ نبویؐ ہی کا قیامت تک کیلئے علمی و زمانی اظہار ہے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا آپکو آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا پسند ہے۔؟ اگر ایسا ہے تو صرف یقین نہیں بلکہ تجربہ کرکے دیکھ لیجئے کہ آپکو یہ دولت فقہِ جعفری کے سوا کہیں اور نہیں ملے گی۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
کیا آپ کو آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا پسند ہے؟ اگر ایسا ہے تو یقین رکھیے کہ فقہِ جعفری کے سوا آپ کو یہ دولت کہیں اور نہیں ملے گی۔ آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا یہ صرف آپ کی تمنّا نہیں بلکہ ہر باشعور انسان کا فطری مطالبہ ہے۔ چاہے آپ بینکار ہوں یا صحافی، انجینئر ہوں یا طبیب، قانون دان ہوں یا معلم، طالب علم ہوں یا کسی کے ہمسفر۔۔۔ کیا آپ کو لکیر کا فقیر بننے سے نفرت نہیں؟ ہم آزادانہ طور پر اپنی دنیا کو سنوارنا چاہتے ہیں اور آخرت کو نجات کا گلشن بنانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے آپ سے کم از کم اپنی زندگی میں ایک بار یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیئے کہ کیا قرآن اور اہلِ بیتؑ کے بغیر ہماری دنیا اور آخرت سنور سکتی ہے۔؟ ویسے ایک مسلمان ہونے کے ناتے اتنا تو ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح پیچیدہ سائنسی مسائل کے حل کے لیے ماہرین کی رہنمائی ناگزیر ہے، ویسے ہی روحانی اور معاشرتی زندگی کی پیچیدگیوں کے لیے بھی قرآن اور اہلِ بیت ؑ سے ہدایت لینا ضروری ہے۔ پھر ہم اس پر کیوں نہیں سوچتے کہ آج کے دور میں قرآن اور اہلِ بیت کا وہ حسین امتزاج کہاں ہے کہ جس سے ہمیں رہنمائی لینی چاہیئے۔؟
ہماری ساری دنیا میں اس وقت صرف فقہ جعفری کو ہی قرآن اور اہلِ بیت کی تعلیمات کا مجموعہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فقہ جعفری کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ یہ وہ فقہی نظام ہے، جو تقلیدِ جامد اور اندھی تقلید کو رد کرتے ہوئے عقلِ انسانی کو وحی کے تابع رکھتا ہے، مگر ساتھ ساتھ عقل کے کردار اور انسان کے سوال کرنے کے حق کو سو فیصد تسلیم کرتا ہے۔ یہاں احکام کی بنیاد صرف ظاہر الفاظ پر نہیں، بلکہ ان اصولوں پر ہے، جو عقلِ سلیم، مقاصدِ شریعت اور قرآنی مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔تقیید، تخصیص، قرائن، سیاق و سباق، عرف، عقل منبعی و عقل مصباحی۔۔۔ یہ تمام ذرائع اس فقہ میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے جدید قانون سازی میں عقلی اصول اور اجتہادی راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔
سوچنے اور سمجھنے والوں کی دنیا میں فقہِ جعفری کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے کہ اس میں نہ تو جہاد کوئی تجارت ہے اور نہ اجتہاد کوئی پیشہ۔ یہاں فتوے ڈالروں کے عوض نہیں بکتے، بلکہ فتووں کو علم، تقویٰ اور دلیل کے ترازو پر تولا جاتا ہے۔ اس صدی میں فقہِ جعفری نے ہر مسلمان کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا کسی ایسے فتوے یا مفتی کو قابلِ اعتماد سمجھا جا سکتا ہے، جو اُمّت کے مفادات کے بجائے سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہا ہو ؟ فقہِ جعفری اُمّت کے درمیان ہر فتنہ انگیز روش سے خود کو الگ رکھتی ہے اور دین کو استعماری ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف ایک مضبوط فکری دیوار قائم کرتی ہے۔ دینی مدارس اور علمی کانفرنسز میں مراجعِ تقلید، جو اس فقہ کے اعلیٰ نمائندے ہیں، اپنی اجتہادی آراء اور فقہی منہج میں زمانی اور مکانی تغیرات کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سائنس، طب، بینکاری، سیاست اور جدید ٹیکنالوجی جیسے میدانوں میں فقہِ جعفری کے پاس ایسے جوابات موجود ہیں، جو انسانی فطرت، معاشرتی ضرورت، جدید سماج اور کتاب و سُنّت دونوں سے ہم آہنگ ہیں۔ شیعہ علماء اور فقہاء اس میں سرگرداں نہیں ہوتے کہ کوئی سوال یا مسئلہ یہ مسئلہ پہلے کبھی تھا یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ شفاف طریقے سے یعنی مجتہد یا عالم کی ذاتی رائے اور میلان کے بغیر کتاب و سُنّت نے چودہ سو سال پہلے آج کے انسان کیلئے اس حوالے سے کیا رہنمائی فراہم کی ہے۔ چنانچہ فقہ جعفری کوئی مجرد فقہی احکام کی فقہ نہیں، بلکہ یہ ہر دور کے انسان کی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ ہمیں فراخدلی کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ کوئی بھی فقہ، جو انسان کے انفرادی و اجتماعی حقوق کی ضامن نہ ہو، وہ نہ قابلِ عمل ہے، نہ قابلِ اعتماد۔
صدیوں سے فقہِ جعفری میں انسانی حقوق، تعلیم و صحت کے مسائل، عورت کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، آزادیِ فکر اور شہری مساوات جیسے موضوعات پر متوازن، عقلی اور اصولی موقف اپنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فقہ میں انسان کی حرمت اور حق کو خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اُسے ہر حال میں بالاتر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی وہ اصول ہے، جو جدید انسانی حقوق کے عالمی منشور سے بھی ہم آہنگ ہے۔ تحقیق، مکالمہ، رواداری۔۔۔ یہ سب اس فقہی سوچ کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔ مذکورہ فقہ میں سوال اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ مطلوب اور ضروری ہے، کیونکہ بغیر سوال کے کوئی فہم جنم نہیں لیتا اور بغیر تحقیق کے کوئی ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے فقہِ جعفری کا دامن ان اذہان کو اپنی جانب کھینچتا ہے، جو تقلید کے ساتھ تفکر کو بھی دین کا حصّہ سمجھتے ہیں۔
یہ فقہ نہ صرف عقائد و عبادات کا احاطہ کرتی ہے بلکہ معاملات، فلسفہ، کلام، اخلاق اور معاشرتی سائنس جیسے موضوعات پر بھی بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ قدیم مسائل جیسے تقدیر و اختیار، توحید و امامت کے ساتھ ساتھ جدید ترین مباحث جیسے مصنوعی ذہانت، جنس کی تبدیلی اور اعضا کی پیوند کاری پر بھی یہ فقہ روشن فکرانہ، عقلی اور شریعت پر مبنی آراء پیش کرتی ہے۔ جس طرح قرآن مجید قیامت تک کے لیے ہدایت ہے، اسی طرح فقہِ جعفری قیامت تک کیلئے اس قرآن کی عملی تفسیر ہے، جو زمان و مکان کی ہر تبدیلی کے ساتھ اپنا نور بانٹتی ہے۔ یہ نور صرف عبادات یا اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو منوّر کرتا ہے۔ حدیث و روایت کے باب میں بھی اس فقہ کی علمی دیانت اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں نہ صرف راویوں کی سند پر تحقیق کی جاتی ہے، بلکہ روایت کے متن کو بھی عقل، قرآن اور سیرتِ نبوی کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔
اسی لیے اہلِ تشیع میں فتویٰ دینا عام علماء کا کام نہیں، بلکہ وہی لوگ یہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں، جو علم و تقویٰ کی اعلیٰ سند رکھتے ہوں۔ انہیں مراجعِ تقلید کہا جاتا ہے۔ ایسے رجالِ دین جو صرف مذہبی پیشوا نہیں، بلکہ فکری، اخلاقی اور سماجی رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔ فقہ جعفری درحقیقت نبیﷺ کی سنت، قرآن اور اہلِ بیتؑ کی تعلیم کا مجموعہ ہے۔ اسے فقہ جعفری اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ فقہ امام جعفر صادقؑ کے ذریعہ مدوّن، منظم اور عام ہوئی، حالانکہ اس کا اصل ماخذ قرآن کریم اور نبی کریمﷺ ہی کی تعلیمات ہیں۔ المختصر یہ کہ فقہ جعفری دراصل "علمِ قرآن اور علمِ نبویؐ کا ہی بہتا ہوا دریا ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے اس دریا کو علمی و عقلی اصولوں، روایتی و سماجی بنیادوں اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ منظم صورت میں پیش کیا، اس لیے یہ فقہ ان کے نام سے منسوب ہوئی۔
صاحبانِ دانش کیلئے عرض کروں کہ کسی علم کی نسبت اگر نام کے ساتھ جڑ جائے تو وہ اس کے ماخذ کی نفی نہیں بلکہ وہ نسبت اس علم کو نکھار کر زمانے کے فہم کے قابل بنانے والے کی پہچان ہوتی ہے۔ مزید آسان الفاظ میں یہ کہ کسی علم یا کتاب کا انتساب اگر کسی شخصیت کے نام ہو تو یہ اس کے اصل مصنّف کی تردید نہیں ہوتی۔ امام جعفرصادق ؑ نے دراصل علمِ قرآن و علمِ نبوی کو آیت و روایت سے نکال کر نظامِ حیات کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کسی علم کی تاریخ اگر کسی خاص ہستی سے منسوب ہو جائے تو یہ نسبت نہ اس علم کے ماخذِ اوّل کی نفی ہے اور نہ اس کی حقیقت کی تبدیلی۔ ایسی نسبت دراصل اس عقلِ فعال، قلبِ متصل اور لسانِ مبین کی خدمات و زحمات کا اعتراف ہے کہ جس نے علمِ نبوی ؐ کو ختمِ نبوّت کے بعد سماج کے جدید مکانی و زمانی فہم کے سانچے میں ڈھالا۔ نسبتِ جعفری، دراصل ایک تعیّن ہے، اُس عالمِ آلِ محمد ؐ کا جس نے علومِ نبوی کے دریا کو قیامت تک کیلئے اُمّت کیلئے قابلِ استفادہ بنایا۔
جدید زمانے کے اربابِ فہم و شعور اس پر توجہ دیں کہ علمِ الہیٰ خود ایک مسلسل انکشاف ہے، جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور مختلف آسمانی صحیفوں کی صورت میں منکشف ہوا۔ ختمِ نبوّت عہد کے میں اس الہیٰ علم نے نبویؐ علم کی صورت اختیار کی۔ اسی علم کا اعلان نبی ؐ نے "انا مدینۃ العم و علی بابھا" کہہ کر کیا۔ یہی نبوی علم علمِ لدُنّی بن کر پیکرِ علی ؑ میں ظاہر ہوا۔ اسی الہیٰ علم کو جو کبھی علمِ نبوی اور کبھی علم لدُنّی کی صورت میں منکشف ہوا، جب امام جعفرصادقؑ کے ہاتھوں مدوّن ہوا تو جعفری کہلایا۔ باالفاظِ دیگر وہ الہیٰ علم، جو انسانی تاریخ میں وحی، نبوت اور ولایت کی صورت میں مسلسل منکشف ہوتا رہا، نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں امام علیؑ کی شکل میں باب العلم و بطورِ علمِ لدنّی جلوہ گر ہوا اور جب یہی علم امام جعفر صادقؑ کے توسط سے منظم و مدوّن ہوا تو فقہِ جعفری کہلایا، یوں یہ فقہ دراصل علمِ نبویؐ ہی کا قیامت تک کیلئے علمی و زمانی اظہار ہے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا آپ کو آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا پسند ہے۔؟ اگر ایسا ہے تو صرف یقین نہیں بلکہ تجربہ کرکے دیکھ لیجئے کہ آپ کو یہ دولت فقہِ جعفری کے سوا کہیں اور نہیں ملے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا آزادانہ طور پر سوچنا قیامت تک کیلئے قرآن اور اہل کی صورت میں نہیں بلکہ جعفری کے ہیں اور کے ساتھ جاتا ہے کرتی ہے اور نہ کیا آپ کہ کیا یہ فقہ
پڑھیں:
غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس
9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔
ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔
آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔
اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔