سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل  نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ہے کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور شہدا فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں،  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔

انہوں نے استدلال کیا کہ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کیلئے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے،خواجہ حارث  نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے۔

انہوں نے مزید استدلال کیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا،
یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں،  خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔

آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت  کردی، 
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے، 28 تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟ خواجہ حارث  نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ مزید درکار ہونگے۔

جسٹس مسرت ہلالی  نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں،
جسٹس جمال مندوخیل  پوچھا کہا کہ میں ابھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں، اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟  ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو دو سے تین دن کا وقت درکار ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی  نے ریمارکس دیے کہ  اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا میں دس منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی۔

عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں،  جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کہا جاسکتا ہے اٹارنی جنرل خواجہ حارث عدالتوں کو ہے یا نہیں آرٹیکل 175 نے کہا کہ کے تحت کیا کہ

پڑھیں:

عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن

لاہور (ویب ڈیسک) معروف صحافی اقرارالحسن ایک بار پھر پی ٹی آئی کے بانی پر برس پڑے اور کہا ہے کہ عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں۔

اپنے سلسلہ وار ٹوئیٹس میں اقرارالحسن نے کہاکہ عمران خان اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں لیکن مرضی سے نہیں، یہ ان کی مجبوری ہے اسلئے کہ فوجی قیادت انہیں منہ نہیں لگا رہی۔ انہیں آج کوئی فوجی دو ٹکے کی نوکری آفر کرے تو یہ اُن کے بوٹ کولہوں سے رگڑ کر صاف کیا کریں گے۔ ان کا کوئی اصول تو ہے نہیں، مرزا آفریدی کیس میں آپ نے دیکھ ہی لیا۔

عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا

عمران خان اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں لیکن مرضی سے نہیں، یہ ان کی مجبوری ہے اسلئے کہ فوجی قیادت انہیں منہ نہیں لگا رہی۔ انہیں آج کوئی فوجی دو ٹکے کی نوکری آفر کرے تو یہ اُن کے بوٹ کولہوں سے رگڑ کر صاف کیا کریں گے۔ ان کا کوئی اصول تو ہے نہیں، مرزا آفریدی کیس میں آپ نے دیکھ ہی لیا۔

— Iqrar ul Hassan Syed (@iqrarulhassan) July 24, 2025

حسان نیازی پتلون لہرانے کے کیس میں جیل ہے تو علیمہ خان کا بیٹاکس طرح آزاد گھوم رہاہے ، وہ بھی اسی ویڈیو میں تھا: شیر افضل مروت 

ان کامزید کہناتھاکہ اصولی موقف کیا ہے؟ پہلے امریکی مداخلت کے خلاف مہم چلائی آج اپنی رہائی کے لیے امریکی مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں، کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہئے پھر انہیں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ خود کو نظریاتی پارٹی کہتے ہیں پھر مرزا آفریدی کو محض دولت کی وجہ سے سینیٹر بنا دیتے۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • سینٹ نے پارلیمنٹیرنزکو حکومتی افسران اورآئینی اداروں کے سربرہان سے کم درجہ ملنے کے معاملے کو کمیٹی کے سپرد کردیا
  • عدالتی معاملات کو دو شفٹوں میں چلانے کا معاملہ زیر غور ہے: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر غور کر رہے ہیں: چیف جسٹس پاکستان
  • عدالتوں میں 2 شفٹوں اور مصنوعی ذہانت کے اسمتعمال پر غور کیا جارہا ہے، چیف جسٹس
  • دورہ ویسٹ انڈیز کیلیے قومی ٹیم کا اعلان، رضوان کپتان، بابر اور شاہین کی بھی واپسی
  • عدالتوں سے حکم امتناع ایوان بالا کی کارروائی میں مداخلت ہے، سینیٹ اجلاس میں بحث
  • "ایک اہم صوبائی عہدےدار ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کو کتنے پیسے ہر ماہ دیتا ہے ؟"وزیرداخلہ محسن نقوی کا ٹوئیٹ، سوال اٹھا دیا
  • پی ٹی آئی کے سزا یافتہ رہنماؤں کو اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف ملے گا، اسد عمر
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن
  • جب تم رفال اڑا ہی نہیں سکتے تو نئے جہاز کس لعنت کے لیے خرید رہے ہو؟ڈمی خواجہ آصف