تل ابیب اور 2 طیارہ بردار امریکی بحری جہازوں پر کامیاب یمنی حملے
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
یمنی مسلح افواج کے ترجمان نے صنعاء کے عوام کو، غاصب صیہونی رژیم کے دارالحکومت اور اسکے ساتھ ساتھ بحیرۂ مکران میں موجود طیارہ بردار امریکی بحری بیڑوں "ٹرومین" و "ونسن" پر یمنی مسلح افواج کے وسیع میزائل و ڈرون حملوں کی خبر دی ہے! اسلام ٹائمز۔ یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحیی السریع نے آج صنعا کے السبعین اسکوائر میں جمع ہونے والے لاکھوں یمنی عوام کے ساتھ خطاب میں حالیہ دنوں میں انجام پانے والے متعدد میزائل، ڈرون و دفاعی آپریشنز کا اعلان کیا ہے۔ جنرل یحیی السریع نے اعلان کیا کہ 2 علیحدہ علیحدہ فوجی کارروائیوں میں مقبوضہ فلسطینی شہر یافا (تل ابیب) میں بن گورین ہوائی اڈے کے قریب واقع غاصب و سفاک صیہونی فوج کے 1 حساس فوجی ہدف کے ساتھ ساتھ 2 طیارہ بردار امریکی بحری بیڑوں "ٹرومین" اور "فنسن" اور بحیرہ احمر و بحیرہ عرب میں، ان کے ساتھ آنے والے دوسرے جنگی بحری جہازوں کو بھی کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پہلی کارروائی میں بن گورین نامی صیہونی ہوائی اڈے کے قریب واقع اہم اسرائیلی فوجی ہدف پر "ذوالفقار" بیلسٹک میزائل داغا گیا۔
جنرل یحیی السریع نے کہا کہ یمنی مسلح افواج مسلسل دوسرے مہینے میں بھی امریکی جارحیت کا فعال انداز میں مکمل ذمہ داری کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں اور جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے، کشیدگی میں اضافے کا بھرپور ردعمل کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ یمنی مسلح افواج کے ترجمان کے مطابق دوسری یمنی مزاحمتی کارروائی میں یمنی میزائل، ڈرون و بحری یونٹس نے کئی ایک کروز میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے، مشترکہ طور پر بحیرہ احمر و بحیرہ عرب میں موجود 2 طیارہ بردار امریکی بحری جہازوں ٹرومین اور فنسن اور ان کے ہمراہ موجود دوسرے جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب بحیرہ عرب میں داخل ہونے کے بعد "فنسن" پر حملہ کیا گیا ہے۔ بریگیڈیئر جنرل یحیی السریع نے صوبہ صنعا کے آسمان پر ایک پیشرفتہ امریکی MQ-9 ڈرون طیارے کے مار گرائے جانے کا بھی اعلان کیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈرون طیارے کو مقامی سطح پر بنائے گئے زمین سے فضا میں مار کرنے والے یمنی میزائل کے ساتھ معاندانہ کارروائیوں کے دوران نشانہ بناتے ہوئے مار گرایا گیا۔ انہوں نے غزہ کی حمایت میں یمنی مزاحمتی کارروائیوں کے تسلسل پر تاکید کرتے ہوئے اعلان کیا یہ گذشتہ 3 ہفتوں میں مار گرایا جانے والا 5واں امریکی ڈرون ہے جبکہ "فتح موعود و جہاد مقدس" کے آغاز سے لے کر اب تک مار گرایا جانے والا 20واں پیشرفتہ امریکی ڈرون ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: طیارہ بردار امریکی بحری جنرل یحیی السریع نے یمنی مسلح افواج کے اعلان کیا انہوں نے کے ساتھ کہا کہ
پڑھیں:
دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔
اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔
عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔