WE News:
2025-11-03@19:16:00 GMT

پی آئی ڈی: ایک موذی بیماری!

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

‏(pelvic Inflammatory Disease)

ڈاکٹر صاحب مجھے گندا پانی آتا ہے، بہت تنگ ہوں۔

یہ جملہ گوکہ نامکمل ہے کیوں کہ سیاق و سباق کے بغیر ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی بولا جاتا ہے، کہنے والی اور سننے والی دونوں سمجھ جاتی ہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں؟

حالانکہ آپ دیکھیے کہ یہ بات نہیں بتائی گئی کہ گندا پانی کہاں سے آتا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟

خواتین کی گندے پانی سے مراد vaginal discharge ہے جسے عرف عام میں لیکوریا بھی کہا جاتا ہے لیکن ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ نارمل لیکوریا گندا پانی نہیں ہوتا۔

ابھی تک ہم نے بیمار ویجائنا کی بات کی جسے ویجینائٹس کہتے ہیں، لیکن ویجائنا کی انفیکشن اگر بچے دانی سے ہوتے ہوئے ٹیوبز اور اووریز تک پہنچ جائے تو اسے پی آئی ڈی کہتے ہیں جو ہمارا آج کا موضوع ہے۔

بہت سے ڈاکٹر ویجینائٹس اور پی آئی ڈی کی تشخیص کو آپس میں کنفیوژ کردیتے ہیں اور ویجینائٹس کو پی آئی ڈی سمجھتے اور کہتے ہیں۔

اس کے ساتھ ایک اور غلطی بھی بہت عام ہے جس میں ویجائنا میں موجود ان بیکٹیریا کا علاج کیا جاتا ہے جو پاخانے کے راستے خارج ہونے کے بعد ویجائنا میں داخل ہو جاتے ہیں، ان بیکٹیریاز کو ختم کرنے کی مدافعت ویجائنا کے پاس قدرتی طور پہ اس کی تیزابیت میں موجود ہوتی ہے، اس کے علاوہ ویجائنا کے سیلز سے جو پانی نکلتا ہے، اس میں کچھ ایسے ہمدرد بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو ویجائنا کی قدرتی مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔

مشکل تب پیش آتی ہے جب ویجائنا کی مدافعت میں کمی آ جائے اور پاخانے سے نکلنے والے بیکٹیریا ویجائنا میں ڈیرہ ڈال لیں، ایسے مواقع پر کئی ڈاکٹرز ان بیکٹیریاز کو ختم کرنے کے لیے انجیکشن لگاتے ہیں جو کہ صحیح نہیں، اس لیے کہ بنیادی وجہ ویجائنا کی کمزور مدافعت ہے بیکٹریا نہیں، اگر ہم مدافعت پہ توجہ نہیں کریں گے تو وجہ وہیں کی وہیں رہے گی اور اینٹی بائیوٹک انجیکشن عارضی طور پر بیکٹیریا پہ قابو پائیں گے۔ انجیکشن ختم ہونے کے بعد یہ بیکٹیریا پھر سے ویجائنا پہ قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں گے، سو اصل علاج ویجائنا کی مدافعت بڑھانے، اس کی تیزابیت قائم رکھنے اور ہمدرد بیکٹیریا کی تعداد زیادہ کرنے سے ہونا چاہیے اور اس کام کے لیے فلیجل اور کلنڈامائیسن کریم مجرب ہیں۔

ہم پی آئی ڈی کی بات کررہے تھے سو یاد رکھیے کہ اس کی تشخیص تب کی جاتی ہے جب انفیکشن ویجائنا سے ہوتی ہوئی بچے دانی، اووریز، ٹیوبز سے ہوتی ہوئی پیلوس تک پہنچ جائے۔

اب جان لیں کہ پیلوس کیا ہے؟ پیلوس pelvis پیٹ کا نچلا حصہ ہے جو چاروں طرف سے کولہے کی ہڈی سے گھرا ہوتا ہے اور اس میں مثانہ، بچے دانی، اووریز، ٹیوبز بڑی آنت کا آخری حصہ اور مقعد پائے جاتے ہیں۔

اگر انفیکشن ان اعضا تک پہنچ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انفیکشن پیٹ کے اندر داخل ہو چکی اور اب یہ سیریس مسئلہ ہے، ایسی مریضہ جب ایمرجنسی میں آئے گی تو اسے ہائی گریڈ بخار ہوگا، پیٹ میں شدید درد ہوگا اور لیبارٹری ٹیسٹ میں خون کے سفید خلیے بہت زیادہ ہوں گے۔

اگر انفیکشن بہت زیادہ ہو چکی ہو تو ہو سکتا ہے کہ پیلوس میں پیپ سے بھری تھیلیاں بھی موجود ہوں جو الٹرا ساؤنڈ پہ دیکھی جا سکتی ہیں، پی آئی ڈی والی مریضہ کو اسپتال میں داخل کروانا اشد ضروری ہے تاکہ اس کو اینٹی بائیوٹکس انجیکشن دیے جا سکیں۔

پی آئی ڈی کا علاج ہو بھی جائے تب بھی اس کی پیچیدگیوں کے اثرات زیادہ تر مریضوں میں موجود رہتے ہیں۔ پی آئی ڈی کی سب سے بڑی پیچیدگی ٹیوبز میں انفیکشن ہونا ہے اور اس وجہ سے ٹیوبز مستقل طور پہ خراب ہوجاتی ہیں جنہیں ہم blocked tubes کہتے ہیں۔ اگر مکمل طور پہ بلاک نہ بھی ہوں تب بھی ان کی اندرونی دیوار میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ پھر سپرم اور انڈے کا ملاپ ناممکن ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انڈے اور سپرم کا ملاپ انہی ٹیوبز میں ہوتا ہے اور یہیں بچہ بنتا ہے جو بعد میں بچے دانی میں پہنچ کر وہاں کا مکین بنتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اگر ایک بار ٹیوبز بند ہو جائیں یا اندرونی دیوار زخمی ہو جائے تو اس کا نہ کوئی حل ہے اور نہ ہی کوئی علاج، قدرت کے بنائے ہوئے نازک عضو میں خرابی ہوگئی تو ہوگئی۔

ایسی صورت حال میں اگر حمل چاہیے ہو تو اس کا حل آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بچہ ہے، لیکن یاد رکھیے کہ اس کی کامیابی کا تناسب 30 سے 40 فیصد ہے یعنی اگر 100 لوگ ٹیسٹ ٹیوب بچہ کروائیں تو صرف 30 سے 40 جوڑے کامیاب ہوں گے۔

پی آئی ڈی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ جنسی تعلق کی وجہ سے ہونے والی انفیکشن ہے جسے sexually transmitted diseases (STD) کہتے ہیں۔

خواتین وحضرات میں یہ بیماریاں ان لوگوں کے ذریعے پہنچتی اور پھیلتی ہیں جن کا جنسی تعلق محض ان کی بیوی یا شوہر تک محدود نہیں ہوتا، یوں بیکٹیریا ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک پہنچ کر اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔

عورت کی اپنے جسم سے لاعلمی اسے عذاب میں مبتلا کرتی ہے اور زیادہ تر اس عذاب کی وجہ بننے والا کوئی اور ہوتا ہے۔

خواتین و حضرات، معلومات طاقت ہیں اور طاقتور زندگی بہتر طریقے سے گزار سکتا ہے۔ پڑھیے، سیکھیے اور اپنی حفاظت کیجیے۔

اگلی بار STD کے ساتھ!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

wenews آئی وی ایف انفیکشن بیوی پی آئی ڈی ٹیسٹ ٹیوب جنسی تعلق حمل خواتین ڈاکٹر طاہرہ شوہر گندا پانی لیکوریا وی نیوز ویجائنا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی وی ایف انفیکشن بیوی پی ا ئی ڈی ٹیسٹ ٹیوب خواتین ڈاکٹر طاہرہ شوہر گندا پانی لیکوریا وی نیوز ویجائنا پی آئی ڈی کی ویجائنا کی گندا پانی بچے دانی کہتے ہیں جاتا ہے تک پہنچ اور اس ہے اور

پڑھیں:

کراچی والوں کو بخش بھی دیں

حکومت سندھ نے پہلے سے عذابوں میں مبتلا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہریوں پر ایک اور مزید مہربانی کی اور کراچی ٹریفک پولیس کے ذریعے نئے فیس لیس ای ٹریکنگ سسٹم (ٹریکس) کا نفاذ کرا دیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے اور کمائی کا ایک نیا طریقہ ہاتھ آ گیا جو شاید لاہور کی نقل میں کیا گیا ہے جہاں کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر گاڑیاں تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی والوں سے ٹریکس کے ذریعے جو بھاری جرمانوں کے ذریعے آمدنی ہو رہی ہے وہ رقم سڑکوں اور شاہراہوں کے علاوہ اندرون شہر میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جا رہی ہے۔

کراچی میں ٹریکس کے ذریعے کمائی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے ذریعے صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے جس کی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی کہ افتتاح کے بعد کسی اور شہر میں اتنی بڑی رقم کے ای ٹکٹس جاری ہوئے ہوں، جن کی تعداد 2600 سے زائد ہے جب کہ کراچی میں لاہور جیسی سڑکیں شاید چند ہی ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بجائے دیگر اداروں کے ماتحت ہوں۔

ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق شہر کے 30 فی صد علاقوں میں جدید کیمروں کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور باقی 70 فی صد جن سڑکوں پر ٹریفک سگنل، لین مارکنگ، زیبرا کراسنگ اور اسٹاپ لائن موجود ہی نہیں، وہاں ای ٹکٹ جاری نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کا شہریوں پر احسان عظیم ہے، ورنہ کراچی کی ٹریفک پولیس نے نئے ناظم آباد اور ان علاقوں میں بھی جرمانے کیے ہیں جو نجی رہائشی منصوبے ہیں جہاں سڑکوں کی تعمیر کوئی بلدیاتی ادارہ نہیں بلکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کراتی ہیں جو مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔

کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی، ہیلمٹ نہ استعمال کرنے پر کیے گئے جب کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، لین لائن کی خلاف ورزیوں پر ہوئے ہیں۔ ٹریفک کے جدید خودکار نظام میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کو سافٹ ویئر سے منسلک کرکے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔

یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام بنی ہوئی ہے اور پوش علاقوں والے فخریہ طور پر ٹریفک قوانین توڑتے ہیں اور جرمانے ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ مہنگی گاڑیوں اور لاکھوں روپے مالیت کی ہیوی بائیکس پر شوقیہ سفر کرتے اور جان بوجھ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے آ رہے ہیں۔

پوش علاقوں کی امیر خواتین کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے متعدد افراد کو کچل چکی ہیں اور نہایت امیر گھرانوں کی یہ خواتین گرفتار بھی ہو چکی ہیں اور پوش علاقوں کے نوجوان بھی اس سلسلے میں کم نہیں جب کہ شہر کے اندرونی علاقوں میں کمسن بچے گلیوں میں موٹر سائیکلیں اس کے باوجود دوڑاتے ہیں کہ وہاں سڑکوں کا وجود نہیں ہوتا اور راستے بھی ناہموار ہوتے ہیں اور ان کے والدین بھی اپنے کمسن بچوں کو موٹرسائیکلیں دے دیتے ہیں جن سے اکثر حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ٹریفک پولیس مرکزی شاہراہوں پر جلد 12 ہزار جدید کیمرے نصب کرے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں پر بھاری جرمانے ہوں گے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تصور ٹریفک پولیس افسران کو بھی نہیں ہوگا۔

ٹریکس کا نشانہ شہر کی وہ اکثریتی آبادی بنے گی، جہاں سڑکوں کا وجود نہیں اور اگر سڑکیں ہیں تو وہ انتہائی تباہ حال ہیں جہاں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ایک ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ ای ٹکٹس سسٹم حکومت نے جرمانہ وصولی کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے جب کہ اس سے قبل آئی جی پولیس کا ایک بیان میڈیا میں آیا تھا کہ ٹریفک خلاف ورزی پر ان کے خیال میں جرمانہ کم ہے جو کم ازکم ایک لاکھ روپے ہونا چاہیے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت کو کراچی کے لوگوں کا کتنا احساس ہے اور حکومت نے عوام پر احسان کرکے بیس ہزار تک جرمانہ مقرر کیا ہے جس کی وصولی ای ٹکٹس سے شروع بھی ہو گئی ہے۔

حکومت اور کراچی ٹریفک پولیس کی بے حسی یہ ہے کہ اجرک والی موٹرسائیکل نمبر پلیٹس کی طرح ٹریکس کا نفاذ بھی صرف کراچی پر کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں کراچی سونے کی چڑیا ہے جہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے جو پہلے اجرک والی نمبر پلیٹس اور اب ای ٹکٹس سسٹم کے تحت وصول ہوگا جب کہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ کراچی میں سفری سہولتوں کا شدید فقدان ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں کا استعمال کرتی ہے اور ان غریبوں کے پاس سفرکی جو کھٹارا بائیکس ہیں ان کی موجودہ پندرہ بیس ہزار روپے کی بھی مالیت نہیں ہے ان سے بھی ٹریفک خلاف ورزی پر جرمانہ بیس ہزار وصول کیا جائے گا۔

 ایم کیو ایم اور مرکزی مسلم لیگ نے ای ٹکٹس سسٹم کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے اور شہریوں نے بھی ٹریکس پر انتہائی برہمی اور تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اسے مزید کراچی دشمنی قرار دیا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کی دشمن بنی ہوئی ہے وہ پہلے کراچی کی صرف سڑکیں ہی تعمیر کرا دے پھر ٹریکس نافذ کرے۔

تباہ حال سڑکوں پر بے دردی سے جرمانے شہریوں پر ظلم کی انتہا ہے، اس لیے سندھ حکومت کراچی والوں کو اب تو بخش دے کیونکہ عالمی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب کراچی رہائش کے قابل نہیں رہا، جس کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور پی پی حکومت کراچی سے بے حسی پر اتری ہے، اب تو کراچی کو بخش دیا جائے اور سب سے پہلے کراچی والوں کو بنیادی سہولیات ہی فراہم کر دی جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • موبائل فون کا استعمال بچوں میں نظر کی کمزوری کا بڑا سبب قرار
  • تجدید وتجدّْد