(pelvic Inflammatory Disease)
ڈاکٹر صاحب مجھے گندا پانی آتا ہے، بہت تنگ ہوں۔
یہ جملہ گوکہ نامکمل ہے کیوں کہ سیاق و سباق کے بغیر ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی بولا جاتا ہے، کہنے والی اور سننے والی دونوں سمجھ جاتی ہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں؟
حالانکہ آپ دیکھیے کہ یہ بات نہیں بتائی گئی کہ گندا پانی کہاں سے آتا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟
خواتین کی گندے پانی سے مراد vaginal discharge ہے جسے عرف عام میں لیکوریا بھی کہا جاتا ہے لیکن ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ نارمل لیکوریا گندا پانی نہیں ہوتا۔
ابھی تک ہم نے بیمار ویجائنا کی بات کی جسے ویجینائٹس کہتے ہیں، لیکن ویجائنا کی انفیکشن اگر بچے دانی سے ہوتے ہوئے ٹیوبز اور اووریز تک پہنچ جائے تو اسے پی آئی ڈی کہتے ہیں جو ہمارا آج کا موضوع ہے۔
بہت سے ڈاکٹر ویجینائٹس اور پی آئی ڈی کی تشخیص کو آپس میں کنفیوژ کردیتے ہیں اور ویجینائٹس کو پی آئی ڈی سمجھتے اور کہتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور غلطی بھی بہت عام ہے جس میں ویجائنا میں موجود ان بیکٹیریا کا علاج کیا جاتا ہے جو پاخانے کے راستے خارج ہونے کے بعد ویجائنا میں داخل ہو جاتے ہیں، ان بیکٹیریاز کو ختم کرنے کی مدافعت ویجائنا کے پاس قدرتی طور پہ اس کی تیزابیت میں موجود ہوتی ہے، اس کے علاوہ ویجائنا کے سیلز سے جو پانی نکلتا ہے، اس میں کچھ ایسے ہمدرد بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو ویجائنا کی قدرتی مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔
مشکل تب پیش آتی ہے جب ویجائنا کی مدافعت میں کمی آ جائے اور پاخانے سے نکلنے والے بیکٹیریا ویجائنا میں ڈیرہ ڈال لیں، ایسے مواقع پر کئی ڈاکٹرز ان بیکٹیریاز کو ختم کرنے کے لیے انجیکشن لگاتے ہیں جو کہ صحیح نہیں، اس لیے کہ بنیادی وجہ ویجائنا کی کمزور مدافعت ہے بیکٹریا نہیں، اگر ہم مدافعت پہ توجہ نہیں کریں گے تو وجہ وہیں کی وہیں رہے گی اور اینٹی بائیوٹک انجیکشن عارضی طور پر بیکٹیریا پہ قابو پائیں گے۔ انجیکشن ختم ہونے کے بعد یہ بیکٹیریا پھر سے ویجائنا پہ قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں گے، سو اصل علاج ویجائنا کی مدافعت بڑھانے، اس کی تیزابیت قائم رکھنے اور ہمدرد بیکٹیریا کی تعداد زیادہ کرنے سے ہونا چاہیے اور اس کام کے لیے فلیجل اور کلنڈامائیسن کریم مجرب ہیں۔
ہم پی آئی ڈی کی بات کررہے تھے سو یاد رکھیے کہ اس کی تشخیص تب کی جاتی ہے جب انفیکشن ویجائنا سے ہوتی ہوئی بچے دانی، اووریز، ٹیوبز سے ہوتی ہوئی پیلوس تک پہنچ جائے۔
اب جان لیں کہ پیلوس کیا ہے؟ پیلوس pelvis پیٹ کا نچلا حصہ ہے جو چاروں طرف سے کولہے کی ہڈی سے گھرا ہوتا ہے اور اس میں مثانہ، بچے دانی، اووریز، ٹیوبز بڑی آنت کا آخری حصہ اور مقعد پائے جاتے ہیں۔
اگر انفیکشن ان اعضا تک پہنچ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انفیکشن پیٹ کے اندر داخل ہو چکی اور اب یہ سیریس مسئلہ ہے، ایسی مریضہ جب ایمرجنسی میں آئے گی تو اسے ہائی گریڈ بخار ہوگا، پیٹ میں شدید درد ہوگا اور لیبارٹری ٹیسٹ میں خون کے سفید خلیے بہت زیادہ ہوں گے۔
اگر انفیکشن بہت زیادہ ہو چکی ہو تو ہو سکتا ہے کہ پیلوس میں پیپ سے بھری تھیلیاں بھی موجود ہوں جو الٹرا ساؤنڈ پہ دیکھی جا سکتی ہیں، پی آئی ڈی والی مریضہ کو اسپتال میں داخل کروانا اشد ضروری ہے تاکہ اس کو اینٹی بائیوٹکس انجیکشن دیے جا سکیں۔
پی آئی ڈی کا علاج ہو بھی جائے تب بھی اس کی پیچیدگیوں کے اثرات زیادہ تر مریضوں میں موجود رہتے ہیں۔ پی آئی ڈی کی سب سے بڑی پیچیدگی ٹیوبز میں انفیکشن ہونا ہے اور اس وجہ سے ٹیوبز مستقل طور پہ خراب ہوجاتی ہیں جنہیں ہم blocked tubes کہتے ہیں۔ اگر مکمل طور پہ بلاک نہ بھی ہوں تب بھی ان کی اندرونی دیوار میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ پھر سپرم اور انڈے کا ملاپ ناممکن ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انڈے اور سپرم کا ملاپ انہی ٹیوبز میں ہوتا ہے اور یہیں بچہ بنتا ہے جو بعد میں بچے دانی میں پہنچ کر وہاں کا مکین بنتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اگر ایک بار ٹیوبز بند ہو جائیں یا اندرونی دیوار زخمی ہو جائے تو اس کا نہ کوئی حل ہے اور نہ ہی کوئی علاج، قدرت کے بنائے ہوئے نازک عضو میں خرابی ہوگئی تو ہوگئی۔
ایسی صورت حال میں اگر حمل چاہیے ہو تو اس کا حل آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بچہ ہے، لیکن یاد رکھیے کہ اس کی کامیابی کا تناسب 30 سے 40 فیصد ہے یعنی اگر 100 لوگ ٹیسٹ ٹیوب بچہ کروائیں تو صرف 30 سے 40 جوڑے کامیاب ہوں گے۔
پی آئی ڈی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ جنسی تعلق کی وجہ سے ہونے والی انفیکشن ہے جسے sexually transmitted diseases (STD) کہتے ہیں۔
خواتین وحضرات میں یہ بیماریاں ان لوگوں کے ذریعے پہنچتی اور پھیلتی ہیں جن کا جنسی تعلق محض ان کی بیوی یا شوہر تک محدود نہیں ہوتا، یوں بیکٹیریا ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک پہنچ کر اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔
عورت کی اپنے جسم سے لاعلمی اسے عذاب میں مبتلا کرتی ہے اور زیادہ تر اس عذاب کی وجہ بننے والا کوئی اور ہوتا ہے۔
خواتین و حضرات، معلومات طاقت ہیں اور طاقتور زندگی بہتر طریقے سے گزار سکتا ہے۔ پڑھیے، سیکھیے اور اپنی حفاظت کیجیے۔
اگلی بار STD کے ساتھ!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی وی ایف انفیکشن بیوی پی ا ئی ڈی ٹیسٹ ٹیوب خواتین ڈاکٹر طاہرہ شوہر گندا پانی لیکوریا وی نیوز ویجائنا پی آئی ڈی کی ویجائنا کی گندا پانی بچے دانی کہتے ہیں جاتا ہے تک پہنچ اور اس ہے اور
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)