ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)نے رواں مالی سال 2024-2025 کیلئے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ہفتے کی چھٹی منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ریونیو ڈویژن کی طرف سے تمام لارج ٹیکس آفسز (ایل ٹی اوز)، مِیڈیم ٹیکس آفسز (ایم ٹی اوز)، کارپوریٹ ٹیکس آفسز (سی ٹی اوز) اور ریجنل ٹیکس آفسز (آر ٹی اوز) کو ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے تمام فیلڈ فارمشنز کو لکھے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ 30 جون 2025 تک ہفتہ کے دن معمول کے مطابق دفتری اوقات میں کام کریں گے۔
مراسلے کے مطابق یہ فیصلہ محصولات کی وصولی کے عمل کو موٴثر بنانے اور اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے، 30 جون 2025 تک تمام ٹیکس آفس کی بروز ہفتہ کی چھٹی منسوخ کی گئی ہے۔
ایف بی آر نے اپنے تمام دفاتر پر زور دیا کہ وہ ایک جامع حکمت عملی اپنائیں، جس پر زیادہ سے زیادہ ریونیو کے سلسلے کو فوکس کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق، متعلقہ اداروں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لائیں اور قانون نافذ کرنے کے اقدامات میں تاخیر نہ کریں تاکہ قومی خزانے کو درکار وسائل بروقت دستیاب ہو سکیں۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں پاکستان کو رواں مالی سال کے لیے اپنے سالانہ ٹیکس ہدف کو 12,970 ارب روپے سے کم کرکے 12,370 ارب روپے کرنے کی اجازت دی تھی اورنظرثانی کے باوجود ایف بی آر کو مسلسل دباوٴ کا سامنا ہے کیونکہ مالی سال 25 کے پہلے نو ماہ کے لیے اس کا ریونیو شارٹ فال پہلے ہی 700 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹیکس آفسز ایف بی آر ٹی اوز کے لیے
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔