راولپنڈی، 7 سالہ کرسچن بچی کی پراسرار ہلاکت، پوسٹ مارٹم میں تاخیر، لواحقین انصاف کے منتظر
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
راولپنڈی:
راولپنڈی کے تھانہ مندرہ کے علاقے میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں سات سالہ کرسچن بچی شفق کی نعش زیر تعمیر مکان سے برآمد ہوئی۔
بچی گزشتہ روز سہ پہر اپنے گھر کے قریب کھیلتے ہوئے لاپتہ ہوگئی تھی، اور اس کی تلاش کے دوران رات تقریباً 10:30 بجے کے قریب بچی کی مردہ حالت میں نعش برآمد ہوئی۔
اس کے جسم اور گردن پر زخموں اور خراشوں کے نشانات بھی موجود تھے، اور ممکنہ طور پر زیادتی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرکے بچی کی نعش کو پوسٹ مارٹم کے لیے گوجرخان کے سول اسپتال منتقل کیا۔ تاہم، گھنٹوں گزرنے کے باوجود پوسٹ مارٹم مکمل نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے بچی کے لواحقین شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ رات سے ہسپتال میں بیٹھے ہیں اور انہیں بتایا جا رہا ہے کہ فرانزک سائنس ایجنسی کی ٹیم اٹک میں موجود ہے اور وہ جلد پہنچے گی۔ اس کے بعد ہی پوسٹ مارٹم مکمل کیا جائے گا۔
بچی کے والد وکی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ غریب آدمی ہیں اور ہال میں صفائی کا کام کرتے ہیں، اور ان کے لیے یہ وقت بہت مشکل ہے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے انصاف کی اپیل کی اور مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
پولیس حکام کے مطابق، فرانزک ٹیم کے پہنچتے ہی پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا جائے گا، تاکہ اس کیس کی مزید تحقیقات کی جا سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پوسٹ مارٹم
پڑھیں:
خان صاحب کی رہائی اب اگلی عید تک چلی گئی ہے؟ بیرسٹر گوہر سے سوال
بیرسٹر گوہر— فائل فوٹوچیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو جنوری میں سزا ہوئی تھی، ایسے کیسز کے فیصلے تو ایک ماہ میں ہو جانے چاہئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بیرسٹر گوہر سے سوال کیا گیا کہ خان صاحب کی رہائی اب اگلی عید تک چلی گئی ہے؟
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ایک جج صاحب چھٹی پر تھے اس لیے بانی پی ٹی آئی کا کیس نہیں لگا، بانی پی ٹی آئی کی رہائی جلد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اس سال بھی نیب کےلیے ساڑھے 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں، نیب نے اسی بجٹ کے ساتھ پچھلے سال 98 ریفرنسز دائر کیے تھے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کہا جارہا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں ججز کی تعداد بڑھانا ضروری ہے، ہائیکورٹ میں 47 اور سپریم کورٹ میں 10 ججز لگائے لیکن زیرِ التوا کیسز ختم ہی نہیں ہو رہے، ہم آج رول آف لا انڈیکس میں 129ویں نمبر پر ہیں، 1996 میں ہمارا نمبر 97 تھا۔
انہوں نے کہا کہ 1996 کے مقابلے میں آج ہمارے یہاں انصاف کا حصول زیادہ مشکل ہوگیا ہے، سیاسی اختلافات بہت ہوگئے، انہیں نفرتوں اور دشمنیوں میں نہ بدلیں، جن کا انصاف پر کیس بنتا ہے انہیں انصاف دیں، ملک کو آگے بڑھنے دیں۔