سی پیک نے پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، قیصر احمد شیخ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
اسلام آباد:چائنا میڈیا گروپ کے اشتراک سے نیشنل لائبریری آف پاکستان میں ایک اہم سیمینار بعنوان “مشترکہ خواب، مشترکہ ترقی: جدیدیت کے دس برسوں کا سفر” منعقد ہوا، جس میں پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ ایک دہائی پر محیط جدیدیت، ترقی، اور دوستی کے سفر کا جائزہ پیش کیا گیا۔پیر کے روزتقریب کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ، قیصر احمد شیخ تھے، جنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ چینی صدر شی جن پھنگ کا دس سال قبل دورہ پاکستان، دونوں ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین – پاکستان اقتصادی راہداری نے گزشتہ دس برسوں میں پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے ثمرات ناصرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک تک بھی پہنچ رہے ہیں۔وزیر مملکت برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن، حذیفہ رحمان نے ورچوئل خطاب میں کہا کہ دس سال قبل پاکستان ایک معاشی بحران سے گزر رہا تھا، ایسے میں صدر شی جن پھنگ کا سی پیک جیسا تحفہ پاکستان کے لیے معاشی سہارا ثابت ہوا، جس سے دونوں ممالک کی دوستی کو نئی جِلا ملی۔رکن قومی اسمبلی و وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن صبحین غوری نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور چین ہر موسم کے ساتھی ہیں، اور صدر شی جن پھنگ کے دورۂ پاکستان نے دوطرفہ اقتصادی تعاون کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔چین میں پاکستان کے سابق سفیر اور سینئر سفارت کار سردار مسعود خان نے اپنے خصوصی پیغام میں چین اور پاکستان کے مابین جاری اقتصادی و سفارتی تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ صدر شی جن پھنگ کے دورہ پاکستان کے ثمرات خاص طور پر پاکستان کے انفراسٹرکچر اور توانائی بحران کے خاتمے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔سیمینار میں تھینک ٹینکس، ماہرین تعلیم، اساتذہ، طلبہ، محققین، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب “چین، آج اور کل” کے مصنف شاہد افراز خان کی کاوشوں کو بھی بھرپور انداز میں سراہا گیا، جو چین کی ترقی، پالیسیوں اور اشتراک کار پر گراں قدر تحقیق پر مبنی ہے۔میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد میں شرکت اس امر کا ثبوت تھی کہ پاکستان اور چین کے درمیان قائم شراکت داری اور ترقی کا یہ سفر عوامی و ادارہ جاتی سطح پر وسیع دلچسپی کا حامل ہے۔یہ سیمینار نہ صرف گزشتہ دہائی کی کامیابیوں کا اعتراف تھا بلکہ مستقبل میں چین – پاکستان تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم کا بھی مظہر تھا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: صدر شی جن پھنگ پاکستان کے کہا کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی نئے مالی سال میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.6 فیصد تک جانے کی پیشگوئی
اسلام آباد:عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نےرواں مالی سال25-2024 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 2.6 فیصد اور نئے مالی سال میں معاشی شرح نمو 3.6 فیصد تک جانے کی پیش گوئی کردی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت سے متعلق کنٹری رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 27-2026 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو4.1 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ 2027 تا 2030 معاشی شرح نمو 4.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی ہے۔
عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اگلے مالی سال 26-2025 کے دوران پاکستان میں افراط زر کی شرح 7.7 رہنے کا امکان ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی 5.1 فیصد تک محدود ہے۔
افراط زر کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2026 تا 2030 افراط زر 6.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال قرض ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی کا امکان ظاہر کیا ہے اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26-2025 میں قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 71.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
اسی طرح 27-2026 میں قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فیصد تک، 2030 تک قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 61 فیصد تک آنے کا امکان ہے۔
حکومت نےآئی ایم ایف کو ترقیاتی فنڈز اور دیگر اخراجات میں کٹوتی کی یقین دہانی کرا دی ہے اور 87 ارب روپے پی ایس ڈی پی کے لیے مختص رقم میں سے روک لیے جائیں گے اور اس کا مقصد عدالتی مقدمات کا بروقت حل ہے تاکہ مالیاتی خلا کو پورا کیا جا سکے۔
عدالتی مقدمات کا فیصلہ مئی اور جون میں متوقع ہے اگر آمدن میں کمی ہوتی ہے تو اخراجات میں متناسب کٹوتیاں کی جائیں گی اور حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ بنیادی اخراجات کو 15,958 ارب روپے تک محدود رکھا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق سماجی شعبے کے اہم اخراجات کے لیے گنجائش برقرار رکھی جائے گی، غیرضروری توانائی سبسڈیوں سے 54 ارب روپے کی بچت ہوگی، ہنگامی مختص رقوم میں سے استعمال نہ ہونے والے 188 ارب روپے الگ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومت بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے1.0 فیصد سرپلس کرنے کے لیے پرعزم ہے، نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کے 3.0 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ ٹیکس آمدن میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ صوبائی ٹیکس حکام نے بہتر کارکردگی دکھائی، ایف بی آر کی آمدن جی ڈی پی کے 10.6 فیصد کے مساوی ہونی چاہیے، ایف بی آر کا رواں مالی سال نظرثانی شدہ ہدف 12 ہزار 332 ارب روپے ہے۔
حکومت کے مطابق ٹیکس ایڈمنسٹریشن بہتر کی جارہی ہے تاکہ ٹیکس ادائیگیوں میں خلا کم ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپلائنس رسک مینجمنٹ، ڈیجیٹل ویلیو چین کی مانیٹرنگ کی جائے گی جبکہ سیلز ٹیکس ریٹرنز میں بے ضابطگیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے اور کسٹمز کے نظام میں فیس لیس اسسمنٹ کو مضبوط بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ 770 ارب مالیت کے زیر التوا عدالتی مقدمات کو حل کرنے کے لیے سرگرم ہیں، سپریم کورٹ میں 43 ارب روپے مالیت کے مقدمات زیر التوا ہیں، اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں 217 ارب روپے کے ٹیکس کیسز ہیں، ان لینڈ ریونیو ایپلٹ ٹربیونل میں 104 ارب روپے کے کیسز شامل ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت مکمل کر لی ہے، ایک مثبت فیصلہ ان مقدمات میں سے تقریباً 120 ارب روپے کےکیسز کو حل کر سکتا ہے۔