لاہور(نیوز ڈیسک)پنجاب حکومت نے تنخواہ دار طبقے سے ہر صورت ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون سازی کا فیصلہ کرلیا، پنجاب فنانس ترمیمی بل 2025 منظوری کے لیے اسمبلی اجلاس میں آج پیش کیا جائےگا۔

پنجاب فنانس ترمیمی بل 2025 کی منظوری قائمہ کمیٹی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب اسمبلی نے دی تھی، بل منظوری کے بعد دستخط کے لیے گورنر کو بھجوایا جائےگا۔

بل کے متن کے مطابق ہر سرکاری یا پرائیوٹ ادارے کا اکاؤنٹس آفیسر ٹیکس کٹوتی اور رقم خزانے میں جمع کروانے کا پابند ہوگا، جبکہ غفلت برتنے پر خود ادائیگی کرنا ہوگی۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ کمپنی کی جانب سے ملازم کی تنخواہوں کی تفصیل نہ ہونے کے باعث ٹیکس چوری ہوتا تھا، ٹیکس خود جمع کروانے والے متعدد اشخاص کم تنخواہ ظاہر کیا کرتے تھے۔

کمیٹی میں یہ بات سامنے آئی ہے کمپنی کو ٹیکس کٹوتی کا پابند کرنے کی کوئی واضح شق بھی موجود نہیں تھی، ترمیم کے ذریعہ ٹیکس وصولی کو مزید مؤثر بنایا جا سکے گا۔ اب ٹیکس جمع نہ کروانے کی صورت میں محکمہ ایکسائز حرکت میں آئےگا۔

کمیٹی کے مطابق جو کمپنیاں ملازمین کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی نہیں کرتیں ان کو بعد از ترامیم خط لکھیں گے۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن قصور وار کے خلاف وصولی کا حکم جاری کرےگا، بل کا مقصد ٹیکس چوری روکنا اور سرکاری خزانے میں آمدنی بڑھانا ہے۔ اس سے قبل بل پنجاب اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: تھوڑی توانائی، بڑے امکانات، رات کے وقت بجلی بنانے والے سولر پینلز

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ

کراچی:

ترقی پذیر ممالک میں ایلیٹ کی گرفت کوئی انوکھی بات نہیں مگر پاکستان میں یہ رجحان کہیں زیادہ گہرا، وسیع اور مالیاتی طور پر نقصان دہ صورت اختیار کر چکاہے۔

آئی ایم ایف کے تازہ سیاسی معیشت کے تجزیے کے مطابق پاکستان میں اقتدار اورفوائد پرقبضہ کسی ایک طبقے کانہیں بلکہ مختلف طاقتور گروہوں،عسکری اداروں، سیاسی خانوادوں، بڑے زمینداروں، تحفظ یافتہ صنعتی لابیوں اور شہری تجارتی مراکزکے درمیان بٹ چکاہے.

یہ گروہ ایک متحدہ اشرافیہ کی طرح نہیں بلکہ مسابقتی مفاداتی بلاکس کی شکل میں کام کرتے ہیں جو ریاستی فیصلوں کوکمزور اورمعاشی پالیسیوں کوغیر مربوط بناتے ہیں۔ نتیجتاً اصلاحات بار بار رک جاتی ہیں، ٹیکس کادائرہ نہیں بڑھ پاتا اور ریاست مسلسل مالیاتی بحران کاشکاررہتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکس چھوٹ،مراعاتی ٹیرف، پسندیدہ صنعتوں کیلیے سبسڈیز اور بڑے غیر رسمی کاروباری طبقات کی حفاظت نے قومی آمدنی کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔ جہاں دیگر ممالک بحرانوں کے بعدٹیکس اصلاحات پر زوردیتے ہیں، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جوں کا توں یا بدتر ہوجاتاہے۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں ایلیٹ کی گرفت صرف معاشی نہیں، بلکہ گہرے سیاسی و ادارہ جاتی ڈھانچے میں پیوست ہے۔ سول و عسکری عدم توازن،سیاسی انتشار اور بیوروکریسی کی جمودی سوچ اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

 تجزیے میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کو روایتی اصلاحاتی نسخے نہیں،بلکہ ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے،جو سیاسی حقیقتوں کے مطابق ہو،جیسے ٹیکس نظام کی ڈیجیٹل اصلاح،مراعات کے بجائے کارکردگی پر مبنی سہولیات،سنگاپور ماڈل کے مطابق ایس او ایز کی غیر سیاسی نگرانی،شفاف معاشی فیصلہ سازی کے فورمز اور سب سے بڑھ کر پائیدارسیاسی استحکام ضروری ہے۔

 ماہرین کے مطابق پاکستان کی مشکل محض ایلیٹ کی گرفت نہیں بلکہ ’’ ایلیٹ ان ٹینگلمنٹ‘‘ ہے جس میں طاقت تقسیم تو ہے مگر تبدیلی کے خلاف متحد ہے، تاہم محتاط،مرحلہ وار اور سیاسی طور پر ہم آہنگ اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلدیاتی اداروں کا مستقبل
  • پنجاب میں مائنز اینڈ منرلز فورس بنانے کا فیصلہ،قائمہ کمیٹی نے منظوری دے دی
  • ٹیکس شعبے میں اصلاحات: نجی سیکٹر کی تجاویز پر غور کیلئے کمیٹی قائم
  • پی ایس ایل کی پروموشن کیلیے لندن روڈ شو کروانے کا اعلان
  • گلستان جوہر،پاک کالونی میں منشیات فروشوں کیخلاف چھاپے، محکمہ ایکسائز آفیسر سمیت 14 ملزمان گرفتار
  • وفاقی آئینی عدالت، قواعد کے بغیر اعلیٰ تنخواہ والے عہدوں کی منظوری
  • پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ
  • کوئٹہ، ریسٹورانٹس اور ہوٹلوں کی ٹیکس رجسٹریشن کا فیصلہ
  • حکمران علما کرام سے پنگا مت لیں، زنانہ پاؤں گرم زمین برداشت نہیں کر سکیں گے، جے یو آئی
  • حکومت پنجاب نے لاہور ڈیولپمنٹ پلان کے دوسرے فیز کا باقاعدہ آغاز کردیا