بغیر تنخواہ ایک دن گزارنا مشکل، لوگ چکر لگاتے رہتے ہیں، حکومت سے واجبات لینا کتنا دشوار: اسلام آباد ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ملازمت میں سابقہ ادائیگیوں سمیت بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ لوگوں کا حکومت سے اپنے واجبات لینا کتنا مشکل کام ہے، لوگ چکر لگاتے رہتے ہیں، لوگوں کے کروڑوں روپے حکومت نے رکھے ہوئے ہیں، ایک دن تنخواہ کے بغیر گزارنا مشکل ہے یہ تو ساڑھے چار سال ہوگئے پیں، حکومت والا سلوک آپ مت کریں، یہ حکومت کا اور کورٹ کا معاملہ ہے، پیسے حکومت دے رہی ہے، ساڑھے چار سال سے درخواست گزار کی تنخواہ ادا نہیں کی کب کریں گے۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران پی بی سی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن نے عدالت کو بتایا کہ آج یا کل تک تنخواہ ادا کر دی جائے گی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیاکہ باقی واجبات کب تک ادا کر دیں گے؟ جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن نے کہاکہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رہے ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ ان سے حلف نامہ لے لیں اگر اپیل منظور ہوگئی تو تمام پیسے واپس کر دیں گے، عدالت نے ہدایات کے ساتھ سماعت ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ڈگری تنازع کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کیس میں اہم پیشرفت کرتے ہوئے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔
چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 روز میں جواب طلب کرلیا ہے۔
عدالت میں دلائل کے دوران درخواست گزار میاں داؤد ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس جہانگیری نے جعلی فارم پر امتحانی انرولمنٹ جمع کرائی اور ابتدائی طور پر وکیل بننے کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے۔
ان کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے ابتدائی تصدیق فراہم کی کہ لیٹر درست نہیں ہے اور ڈگری جعلی ہے، جس کی بنیاد پر درخواست کو ہائیکورٹ میں دائر کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 1989 میں جسٹس طارق محمود جہانگیری پر یو ایف ایم کمیٹی کی جانب سے 3 سال کی پابندی عائد کی گئی تھی، جبکہ پابندی کے دوران انہوں نے جعلی انرولمنٹ سے امتحان دیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ اب بارِ ثبوت جسٹس جہانگیری پر ہے کہ وہ اپنی ڈگری کی اصلیت ثابت کریں۔
دوسری جانب اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل نے عدالت میں استدعا کی کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور ہائیکورٹ کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
وکلا نے عدالت کو باور کرایا کہ ڈگری اور وکالت کے معاملات کی تصدیق اور فیصلہ متعلقہ بار کونسلز کریں، جبکہ جوڈیشل کمیشن جج کے تقرر کے معاملات دیکھتا ہے۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے دلائل پیش کرتے ہوئے بھارتی اور سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ یہ کیس ہائیکورٹ کے جج کی اہلیت اور ڈگری کی سچائی کے معاملے پر ہے اور تمام فریقین کو 3 روز میں اپنی جانب سے جواب جمع کرانا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری چیف جسٹس سرفراز ڈوگر