بیجنگ:چین کے شینژو -20 انسان بردار مشن کے تر جمان نے کہا ہے کہ رواں سال فروری کے آخر میں چین اور پاکستان کے درمیان تعاون کے معاہدے پر دستخط کے بعد ، پاکستانی خلابازوں کے انتخاب کا عمل جاری ہے۔ پرائمری سلیکشن پاکستان میں کی جائے گی اور سیکنڈری اور حتمی سلیکشن چین میں ہو گی اور دو پاکستانی خلابازوں کو چین میں ٹریننگ میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا جائے گا۔تر جمان نے بدھ کے روز ایک پر یس کا نفر نس میں بتا یا کہ چین کے خلائی اسٹیشن کے ساتھ مشن پلاننگ اور تعاون کی پیش رفت کے مطابق، ایک پاکستانی خلاباز پے لوڈ ایکسپرٹ کی حیثیت سے مشترکہ پرواز میں حصہ لے گا اور مدار میں قیام کی مدت کے دوران نہ صرف عملے کا روزمرہ کا کام مکمل کرے گا بلکہ پاکستانی سائنسی تجربات کا آپریشن بھی انجام دے گا۔ترجمان نے مز ید بتا یا کہ مشن ہیڈکوارٹرز نے فیصلہ کیا ہے کہ بیجنگ وقت کے مطابق جمعرات کی شام 5 بجکر 17 منٹ پر شینزو-20 انسان بردار خلائی جہاز لانچ کیا جائے گا۔ترجمان کے مطابق یہ مشن خلائی اسٹیشن کی ایپلی کیشن اور ڈیولپمنٹ کے مرحلے میں پانچواں انسان بردار مشن ہے اور انسان بردار خلائی منصوبے کا 35واں مشن ہے۔ اس مشن کا بنیادی مقصد شینزو-19 کے عملے کے ساتھ تبدیلی کے عمل کو مکمل کرنا، تقریباً 6 ماہ تک خلائی اسٹیشن میں قیام کے دوران خلائی سائنس اور ایپلی کیشن تجربات کرنا،کیبن سے باہر کی سرگرمیاں انجام دینا، خلائی ملبے سے تحفظ کے آلات کی تنصیب، ایکسٹرا وہیکیولر پے لوڈ اور دیگر آلات کی تنصیب سمیت مشن کو انجام دینا ہے۔ترجمان نے کہا کہ شینژو-19 خلاباز کا عملہ شینژو-20 خلاباز عملے کے ساتھ مدار میں گردش مکمل کرنے کے بعد رواں ماہ کی 29 تاریخ کو ڈونگ فنگ لینڈنگ سائٹ پر واپس جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور

چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔

ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔

شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔

دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔

جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔

شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔

ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔

چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔

شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں مسافر اور مال بردار ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں؛ متعدد ہلاکتیں
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر مشاورت جاری ہے، عطا تارڑ
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • بلوچستان: صوبائی حکومت کی درخواست مسترد، بلدیاتی انتخاب 28 دسمبر کو ہی ہونگے
  • ملک میں اکتوبر میں مہنگائی تخمینے سے زائد ریکارڈ
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • بھارتی تاریخ کا سب سے وزنی ترین مواصلاتی سیٹلائٹ خلا کیلئے روانہ
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور