گلوبل سکیورٹی انیشٹو ۔ شورش زدہ دنیا میں ایک امید بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
بیجنگ :2022 میں چینی صدر نے جامع، مشترکہ، تعاون پر مبنی اور پائیدار عالمی سلامتی پر ایک انیشٹو پیش کیا،جس کی جڑیں روایتی چینی ثقافت سے جڑی ہیں ۔ مثال کے طور پر ، یہ انیشٹو ہم آہنگی حاصل کرنے کے لئے اختلافات کو نظرانداز کرنے کی وکالت کرتا ہے اور انسان اور فطرت کے ہم آہنگ بقائے باہمی کی حمایت کرتا ہے۔چین نہ صرف گلوبل سکیورٹی انیشٹو کو پیش کرنے والا ملک ہے بلکہ اس کا معمر بھی ہے۔ 2023 میں سعودی عرب اور ایران نے چین کی ثالثی سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ چین افریقہ میں ہائبرڈ چاول کی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ایف اے او کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو کے ذریعے چین باہمی رابطے اور ماحول دوست ترقی کے ذریعے علاقائی استحکام کو فروغ دیتا ہے نیز صحت عامہ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ یہ سب چین کی جانب سے گلوبل سیکیورٹی انیشٹو کے نفاذ کے اقدامات ہیں۔گلوبل سیکیورٹی انیشٹو چین کی تہذیبی دانش مندی اور “انسانیت کے ہم نصیب معاشرے” کے وژن کو ایک پل کی طرح جوڑتا ہے۔ افراد کے لئے، اس کا مقصد اگلی نسل کو جنگ یا ماحولیاتی آفات سے بچانے کو یقینی بنانا ہے اور ریاست کے لئے،عالمی حکمرانی میں مساوی شرکت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا اور انسانی تہذیب کے لیے پرامن بقائے باہمی کا ایک نیا راستہ تلاش کرنا ہے۔ فی الحال اس اقدام کو 120 سے زائد ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے اور اسے چین اور کئی دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے مابین تبادلوں اور تعاون سے متعلق 120 سے زائد دوطرفہ اور کثیر الجہتی دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے۔اس اقدام کی کامیابی کا یہ بھی ایک بڑا ثبوت عالمی رائے عامہ کا یہ ماننا ہے کہ “یہ انیشٹو شورش زدہ دنیا میں عوامی بھلائی کے لئے ایک امید فراہم کرتا ہے۔”
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لئے
پڑھیں:
پاکستان او آئی سی کی شراکت داری کا حد درجے احترام کرتا ہے، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اصلاحات اور توسیع میں او آئی سی کے رکن ممالک مناسب نمائندگی پر زور دیتے رہے ہیں۔ پاکستان او آئی سی کی شراکت داری کا حد درجے احترام کرتا ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ یہ ڈائیلاگ نئی سوچ کو اجاگر اور نیا عزم لائے گا تاکہ جرات مندانہ اقدام کیا جائے۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے یہ بات اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے باہمی تعاون سے متعلق سلامتی کونسل میں بریفنگ سے خطاب میں کہی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کے عرصے میں پاکستان کا یہ دوسرا اور آخری سگنیچر ایوانٹ تھا۔ اسحاق ڈار نے اس موضوع کو پاکستان کی ملٹی لیٹرل ازم پالیسی اور تقریبا دو ارب لوگوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ یہ بریفنگ ایسے وقت ہورہی ہے جب گلوبل ڈس آڈر گہرا تر ہورہا ہے، سزا کے خوف کے بغیرجنگیں مسلط کی جارہی ہیں، احتساب کے بغیر مختلف ممالک کے علاقوں پر قبضے جاری ہیں، انسانی بحران ہر گزرتے لمحے بڑھ رہا ہے اور نفرت پر مبنی نظریات معمول بن رہے ہیں۔ اس صورتحال میں باہمی رابطوں اور اصولی اقدامات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کو یقین ہے کہ اس تخریب کا شکار دنیا میں او آئی سی کلیدی سیاسی کردار رکھتی ہے اور تنظیم کی اقوام متحدہ سے شراکت داری مضبوط تر، گہری اور مزید موثر ادارہ جاتی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی اور اقوام متحدہ کا تعاون یو این چارٹر کے تحت ہے جو اس بات کوواضح کرتا ہے کہ عالمی امن اور سلامتی برقرار رکھنے سے متعلق سلامتی کونسل کی بنیادی زمہ داری میں علاقائی اہتمام کا تعاون اہمیت رکھتا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم کے طور پر او آئی سی نے ہمیشہ عالمی اور علاقائی کوششوں میں پل کا کردار ادا کیا ہے اور سیاسی ترجیحات کو ہیومینیٹرین ترجیحات سے جوڑا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ آزادی اور ریاست کے حق سے متعلق فلسطینی عوام کا معاملہ ہو،جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی وکالت ہو اور بھارت کے غیرقانونی قبضے کے خاتمے کی بات ہو، لیبیا، افغانستان، شام، یمن، ساحل اور اس سے باہر امن کی کوششوں میں تعاون ہو، اقوام متحدہ کیلئے او آئی سی ہمیشہ ناگزیر مذاکرات کار رہی ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان او آئی سی کی شراکت داری کا حد درجے احترام کرتا ہے۔ بطور تنظیم کے بنیادی رکن اور کثیرالجہتی عمل پر مکمل یقین رکھنے والے ملک کے ناطے ہمارا موقف ہے کہ یہ شراکت داری ارتقا کی نئی جہتوں کو چھوتی ہوئی عملی ہم آہنگی میں بدلنی چاہیے۔
اسحاق ڈار نے زور دیا کہ زمینی حقائق پر مبنی ایسا پیشگی خبرداری کا نظام، اعتماد پر مبنی مشترکہ ثالثی فریم ورک اور مستقل سیاسی اور تکنیکی تعاون ہونا چاہیے جو ٹھوس نتائج مرتب کرے۔
نائب وزیرخارجہ نے کہا کہ سیاسی تغیرات میں ثالثی سے لے کر ہیومینیٹرین ہنگامی صورتحال، غیرمسلح کیے جانے سے متعلق اشوز کی وکالت، ترقی اور مذہبی و ثقافتی ورثہ کے تحفظ تک اقوام متحدہ اور اوآئی سی کے روابط میں اضافہ ہورہا ہے تاہم ادارہ جاتی تعلق میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ انتہاپسندی کی بڑھتی لہر خصوصا اسلاموفوبیا کو روکنے سے زیادہ اور کس چیز میں یہ تعاون بڑھنا چاہیے کیونکہ مذہبی منافرت اقوام متحدہ کے چارٹر پر ضرب کے مترادف ہے۔
15 مارچ کو اسلاموفوبیا کا مقابلے کا دن منانے سے متعلق پاکستان کے انیشی ایٹو اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کا خصوصی مندوب مقرر کیے جانے کو اسحاق ڈار نے سراہا اور کہا کہ عالمی سطح پر احترام، شمولیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کوبڑھانے کے لیے مندوب کے کردار کو مزید ادارہ جاتی بنانا چاہیے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ او آئی سی اُن عالمی امن اور استحکام کی کاوشوں میں اہم شراکت دار رہی ہے جہاں اقوام متحدہ کا تنہا وجود ناکافی ثابت ہوا۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا رہنما اقوام متحدہ کا چارٹرہونا چاہیے جو کہ اصولوں کے مطابق ہو نہ کہ جیوپالیٹکس پر۔کیونکہ عالمی چیلنجز عالمی شراکت داری کا تقاضا کرتے ہیں۔اس ضمن میں اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسی علاقائی تنظیموں کا تعاون سفارتی لوازمہ نہیں ناگزیر ضرورت ہے۔
تقریر کے اختتام پر نائب وزیراعظم نے صدارتی بیان پر شرکا کی جانب سے اتفاق پر پیشگی اظہار تشکر کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے اقوام متحدہ اور او آئی سی کے درمیان شراکت داری اور تعاون مزید مستحکم ہوگا۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کے عرصے میں دو اہم سیگنیچر ایونٹس سے انتہائی اہم خطاب اور غیرمعمولی تجاویز پیش کرکے اسحاق ڈار نے سفارتکاری کے میدان میں اپنے جوہر عالمی سطح پر منوالیے ہیں۔