Daily Ausaf:
2025-11-05@02:30:44 GMT

پولیس اور عوام

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

مغل دور میں پولیس انسپکٹر کو داروغہ اور پولیس سٹیشن کو کوتوالی کہتے تھےلیکن پھر دور بدلا اور پولیس کے نئے نظام کا آغاز ہوا۔یہ نظام ہمیں انگریز کے دور کی یاد دلاتا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو کئی اداروں کی طرح پولیس کے ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا،جبکہ 22 مارچ 1861 کو پولیس ایکٹ کی تشکیل ہوئی۔جس کے تحت پولیس نے اپنا کام شروع کیا۔کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد پولیس کا محکمہ آج بھی اسی ایکٹ پر قائم ہےجسے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔اگرچہ مارچ 2002 میں اس میں تبدیلی کی کوشش کی گئی،تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔صدیوں پر محیط انسانی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس معاشرے سے جرائم کے خاتمے،امن کے قیام اور قانون کی بالادستی کے لیئے اپنا متعین کردار ادا کرتی ہے اور کرتی آرہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ جس میں مزید وسعت اور گہرانی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔بہت ترقی ہوئی،سائنس نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔تاہم آج تک کوئی ادارہ بھی پولیس کی جگہ نہیں لے سکا۔ریاست کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے،ریاست کے مختلف ادارے اس کی معاونت کرتے ہیں۔یہ درست ہے ملک میں روز بروز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے پولیس کی ذمہ داریوں میں انتہا کا اضافہ کیا ہے۔یہ الگ بات کہ ضرورت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق پولیس جیسے اہم ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی دستیاب نہیں۔بھرتی اور تبادلوں میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ بھرتیاں اور تبادلے اشرافیہ کی خواہشات پر ہوتے ہیں۔پولیس کے سربراہان اکثر اس مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن بہت کم ہوتا ہے کہ حکومت ان کی آرا پر توجہ مبذول کرے۔پولیس ایکٹ 1861 میں تبدیلی اب وقت کا تقاضا ہے تاکہ محکمہ کو انتظامی لحاظ سے خود مختار اور فعال بنایاجاسکے۔کیونکہ ڈیڑھ صدی پرانے ایکٹ کے ذریعے جرائم کاخاتمہ ممکن نہیں۔ ہماری خواہش ہے پولیس کو کسی فورس کی بجائے آزاد اور خودمختار قوموں کی طرح ایک خدمت گار ادارہ بنایاجائےتاکہ یہ عوام کے لیئے خوف اور دہشت کی علامت نہ ہو۔حالیہ سالوں کے دوران ملک میں عمومی طور پر امن و امان کی صورت حال میں کافی بہتری آئی ہے۔اس کی وجہ مذہبی انتہا پسندوں،دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیئے ریاست کے موثر اقدمات ہیں۔ابھی بہت وقت گزراجب کراچی میں بھتہ خوری اور دیگر جرائم کی وارداتیں عام تھیں۔خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ لوگ سر شام ہی گھروں کو لوٹ جاتے تھے جبکہ روشنیوں کا یہ شہر پوری طرح اندھیروں میں ڈوب چکا تھا،لیکن سندھ پولیس اور رینجرز کے باہمی تعان،بہترین انٹیلی جنس شیئرنگ کے نتیجے میں کراچی کا امن اور روشنیاں کافی حد تک بحال ہو چکی ہیں،جنہیں دائمی شکل دینے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔بدلتی ہوئی صورت حال اور چیلنجزکامقابلہ کرنے کے لیئے نا صرف ضروری قانون سازی درکار ہے بلکہ پوسٹنگ،ٹرانسفر اور ٹریننگ کے نظام میں بھی بہتری اور میرٹ کی بالادستی یقینی بنانےکی ضرورت ہے۔اس کے بغیرحقیقی معنوں میں پولیس کے محکمے کو سدھارا نہیں جاسکتا۔اچھے وقتوں میں پولیس سروس آف پاکستان ناصرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی اچھی شہرت کی حامل پولیس سمجھی جاتی تھی۔دنیا بھی اسے بطور پاکستانی ادارہ تسلیم کرتی تھی۔اس سے وابستہ افسران بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک میں فساد کےخاتمے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیےخدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔تاہم کمزور جمہوری حکومتوں اور آمروں کی مداخلت کے نتیجے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح پولیس کاادارہ بھی روبہ زوال ہوا ہے۔وسائل کی کمی،نت نئی شکل میں سامنے آنے والے جرائم کے خاتمے کے لیئے ناگزیر قانون ساز ی سے اجتناب،جرم و سزا کے کمزور پڑتے محکمانہ رویے،پوسٹنگ،ٹرانسفر میں سیاسی مداخلت،برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی طرف سے پولیس کو سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کےبڑھتے ہوئے رجحان اور عوامی نمائندوں کی بے جا مداخلت نے پولیس اسٹرکچر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔پھر یہ کہ پولیس اہلکاروں کی گھروں سے سینکڑوں میل دور تقرریاں،ڈیوٹی کےدوران مناسب آرام کے لیے بریک نہ ملنا۔محکمہ میں ناپید ہوتا چھٹی کا تصور اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیئے پولیس کا بے دریغ استعمال ایسے عوامل ہیں جنہوں نے اس ادارے کی کارکردگی پر انتہائی مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم پولیس فورس کو ایک فعال قومی ادارہ بنانے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کریں اور دیگر سیکورٹی اداروں کی طرح محکمہ پولیس کو بھی ہر طرح کی سیاست اور سیاسی اجارہ داری سے پاک کر دیں۔مالی اور انتظامی سطح پر جب تک اسے مکمل خودمختاری نہیں دی جاتی،اس سے اچھی توقعات رکنا عبث ہے۔ہو نہیں سکتا کہ ضروری تبدیلیاں لائے بغیر پولیس کوئی مثالی کردار ادا کر سکے۔پولیس کے ادارے سے وابستہ شکایات کے ازالے کے لیئےانتہائی لازم ہے کہ پولیس میں نچلی سطح پر خاندانی اور پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں کی بھرتی کی جائے۔افسران بھی اپنے دفاتر میں نہ بیٹھیں بلکہ گاہے بگاہے تھانوں کے دورے کرتے رہیں،تاکہ تھانوں میں دادرسی کے حصول کو آسان بنایا جا سکے۔عمومی طور پر تھانوں سے یہ شکایات پیدا ہوتی ہیں کہ وہاں مظلوم اور غریب افراد کی داد رسی نہیں ہوتی۔اندراج مقدمہ کا حصول ان کے لیے انتہائی مشکل اور ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔جائز ایف آئی آر کے لیے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔رشوت نہ دی جائے تو تھانے کے چکر لگوائےجاتے ہیں۔ایف آئی آر درج ہونے کی صورت میں بھی اتنی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ پیسے کے بغیر کسی کے لیے بھی دادرسی کا اگلا مرحلہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں درخواست دہندہ یا مدعی کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیئے افسران کے دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں یا وکیل کی وساطت سے مقامی سیشن کورٹ میں 22/A، 22/B کے تحت رٹ پٹیشن دائر کرنی پڑتی ہے۔جہاں دو تین سماعتوں کے بعد درخواست دہندہ بالآخر اندراج مقدمہ کا حکم لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ لوگ اکثر جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج کراتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ جائز ایف آئی آر کا اندراج بھی نہیں ہوتاجس کے لیے درخواست دہندہ کو پتہ نہیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔قانون میں ہے کہ جو بھی جھوٹی ایف آئی آر دراج کرائے۔بعداز تفتیش غلط ثابت ہونے پر مدعی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 182 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔تاہم لوگ اس قانون سے ڈرتے اور 182 ت پ کو معمولی نوعیت کی دفعہ(سیکشن) سمجھ کر کارروائی نہیں کرتے۔ لوگوں میں 182 ت پ کا مطلق بھی خوف نہیں ضروری ہے کہ قانون کے اس سیکشن میں ترمیم کی جائے اور اس دفعہ کو اس قابل بنایا جائے کہ لوگ اس سے ڈریں اور خوفزدہ ہوں۔ جب تک 182 ت پ کا ڈر لوگوں پر نہیں بیٹھتا، جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج ہوتا رہے گا۔ ایسی ایف آئی آرز کے اندراج کے بعد لوگ جن مشکلات سے گزرتے ہیں اسکا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم نے پولیس کو یورپین پولیس کے مطابق کرنا ہے اور چاہتے ہیں کہ پولیس بھی ان جیسا طرز عمل اختیار کرے۔ قانون سے تجاوز ان کی سرشت میں شامل نہ ہو تو ہمیں پولیس کے ادارے میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔شعور کے بغیر ادارے کبھی زندہ نہیں رہ سکتے۔سوچ بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ پولیس کو وہ تربیت اور وسائل دیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایف آئی آر میں پولیس پولیس کے کہ پولیس پولیس کو کے لیئے کے لیے کی طرح

پڑھیں:

عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان

ویب ڈیسک : وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔

 بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے سنجاوی میں اتوار کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے ہر کونے میں جانے کو تیار ہوں، وسائل کی کمی ہو تو پیدل بھی عوام تک پہنچوں گا.انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل اور مسائل سب کے سامنے ہیں مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح وسائل کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانا ہے, جو وعدہ کیا وہ پورا کیا ہے، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔

لاہور :ڈمپر نے موٹر سائیکل کو کچل دیا، 3 افراد جاں بحق

انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے سنجاوی کو ترقی کے نقشے پر نمایاں کرنے کیلئے فوری طور پر کئی بڑے اعلانات کیے جو علاقے کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کو انقلابی تبدیلی دیں گے۔انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال سنجاوی کو 20 بستروں پر مشتمل مثالی طبی ادارے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسپتال کو بیکڑ کی طرز پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فعال بنایا جائے گا۔

موٹرسائیکل فلائی اوور سے نیچے گر گئی،سوارموقع پر جاں بحق

اس موقع پر اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹرز اور عملے سے ملاقات کی اور مریضوں کی فوری سہولیات کیلئے ہدایات جاری کیں تعلیم کے شعبے میں سنجاوی کے بوائز اور گرلز کالجز کیلئے علیحدہ عمارتوں کی تعمیر اور دو بسوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج زیارت میں سنجاوی کے طلبہ کیلئے دو نئے بلاکس اور چار بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔

انہوں نے بتایا کہ زیارت کے 14 غیر فعال اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد مکمل طور پر فعال ہوں گے جبکہ محکمہ تعلیم میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کی جا رہی ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرٹ کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی جائے تو فوری کارروائی یقینی بنائی جائے گی ۔

شادی کی خوشیاں غم میں بدل گئیں

سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے عوامی مطالبے پر سنجاوی میں چار نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، بائی پاس اور نشاندہی کردہ 15 کلومیٹر نئی سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔

انہوں نے افسران و اہلکاروں کیلئے نیا انتظامی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کو بظاہر غیر مقبول مگر وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرپا امن کیلئے ضروری ہے لینڈ سیٹلمنٹ کے عمل کا آغاز کرتے ہوئےوزیراعلیٰ نے کہا کہ سنجاوی کیلئے یہ عمل فوری شروع ہوگا جبکہ بلوچستان بھر میں انتظامی حدود کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے، زیارت میں نئے ضلع کے قیام پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سنجیدہ غور جاری ہے ۔

نیوزی لینڈ کے بیٹرکین ولیمسن کا ٹی 20 فارمیٹ سےریٹائرمنٹ کا اعلان

اجتماع سے قبل وزیراعلیٰ نے استحکام پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں شرکت کی اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔دورے کے دوران صوبائی وزیر حاجی نور محمد خان ڈمر، پارلیمانی سیکریٹری ولی محمد نورزئی، سردار کوہیار خان ڈومکی اور میر اصغر رند سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔

وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنجاوی پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر محمد ریاض خان داوڑ نے پرتپاک استقبال کیا عوام نے وزیراعلیٰ کے اعلانات پر زوردار نعرے بازی کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

اداکارہ خوشبو کا ارباز خان سے طلاق کی خبروں پر یوٹرن، مداح حیران

متعلقہ مضامین

  • قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے، جاوید قصوری
  • تعریفیں اور معاہدے
  • برطانیہ: اب عوامی نمائندوں، سرکاری عہیدیداروں کے گھروں پر احتجاج عوام کو مہنگا پڑے گا
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا نئے انوائرمنٹ ایکٹ لانے کا مطالبہ
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • پنجاب میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں،جماعت اسلامی
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • لاہور میں بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے، مولانا ہدایت الرحمان