مغل دور میں پولیس انسپکٹر کو داروغہ اور پولیس سٹیشن کو کوتوالی کہتے تھےلیکن پھر دور بدلا اور پولیس کے نئے نظام کا آغاز ہوا۔یہ نظام ہمیں انگریز کے دور کی یاد دلاتا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو کئی اداروں کی طرح پولیس کے ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا،جبکہ 22 مارچ 1861 کو پولیس ایکٹ کی تشکیل ہوئی۔جس کے تحت پولیس نے اپنا کام شروع کیا۔کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد پولیس کا محکمہ آج بھی اسی ایکٹ پر قائم ہےجسے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔اگرچہ مارچ 2002 میں اس میں تبدیلی کی کوشش کی گئی،تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔صدیوں پر محیط انسانی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس معاشرے سے جرائم کے خاتمے،امن کے قیام اور قانون کی بالادستی کے لیئے اپنا متعین کردار ادا کرتی ہے اور کرتی آرہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ جس میں مزید وسعت اور گہرانی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔بہت ترقی ہوئی،سائنس نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔تاہم آج تک کوئی ادارہ بھی پولیس کی جگہ نہیں لے سکا۔ریاست کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے،ریاست کے مختلف ادارے اس کی معاونت کرتے ہیں۔یہ درست ہے ملک میں روز بروز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے پولیس کی ذمہ داریوں میں انتہا کا اضافہ کیا ہے۔یہ الگ بات کہ ضرورت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق پولیس جیسے اہم ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی دستیاب نہیں۔بھرتی اور تبادلوں میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ بھرتیاں اور تبادلے اشرافیہ کی خواہشات پر ہوتے ہیں۔پولیس کے سربراہان اکثر اس مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن بہت کم ہوتا ہے کہ حکومت ان کی آرا پر توجہ مبذول کرے۔پولیس ایکٹ 1861 میں تبدیلی اب وقت کا تقاضا ہے تاکہ محکمہ کو انتظامی لحاظ سے خود مختار اور فعال بنایاجاسکے۔کیونکہ ڈیڑھ صدی پرانے ایکٹ کے ذریعے جرائم کاخاتمہ ممکن نہیں۔ ہماری خواہش ہے پولیس کو کسی فورس کی بجائے آزاد اور خودمختار قوموں کی طرح ایک خدمت گار ادارہ بنایاجائےتاکہ یہ عوام کے لیئے خوف اور دہشت کی علامت نہ ہو۔حالیہ سالوں کے دوران ملک میں عمومی طور پر امن و امان کی صورت حال میں کافی بہتری آئی ہے۔اس کی وجہ مذہبی انتہا پسندوں،دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیئے ریاست کے موثر اقدمات ہیں۔ابھی بہت وقت گزراجب کراچی میں بھتہ خوری اور دیگر جرائم کی وارداتیں عام تھیں۔خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ لوگ سر شام ہی گھروں کو لوٹ جاتے تھے جبکہ روشنیوں کا یہ شہر پوری طرح اندھیروں میں ڈوب چکا تھا،لیکن سندھ پولیس اور رینجرز کے باہمی تعان،بہترین انٹیلی جنس شیئرنگ کے نتیجے میں کراچی کا امن اور روشنیاں کافی حد تک بحال ہو چکی ہیں،جنہیں دائمی شکل دینے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔بدلتی ہوئی صورت حال اور چیلنجزکامقابلہ کرنے کے لیئے نا صرف ضروری قانون سازی درکار ہے بلکہ پوسٹنگ،ٹرانسفر اور ٹریننگ کے نظام میں بھی بہتری اور میرٹ کی بالادستی یقینی بنانےکی ضرورت ہے۔اس کے بغیرحقیقی معنوں میں پولیس کے محکمے کو سدھارا نہیں جاسکتا۔اچھے وقتوں میں پولیس سروس آف پاکستان ناصرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی اچھی شہرت کی حامل پولیس سمجھی جاتی تھی۔دنیا بھی اسے بطور پاکستانی ادارہ تسلیم کرتی تھی۔اس سے وابستہ افسران بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک میں فساد کےخاتمے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیےخدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔تاہم کمزور جمہوری حکومتوں اور آمروں کی مداخلت کے نتیجے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح پولیس کاادارہ بھی روبہ زوال ہوا ہے۔وسائل کی کمی،نت نئی شکل میں سامنے آنے والے جرائم کے خاتمے کے لیئے ناگزیر قانون ساز ی سے اجتناب،جرم و سزا کے کمزور پڑتے محکمانہ رویے،پوسٹنگ،ٹرانسفر میں سیاسی مداخلت،برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی طرف سے پولیس کو سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کےبڑھتے ہوئے رجحان اور عوامی نمائندوں کی بے جا مداخلت نے پولیس اسٹرکچر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔پھر یہ کہ پولیس اہلکاروں کی گھروں سے سینکڑوں میل دور تقرریاں،ڈیوٹی کےدوران مناسب آرام کے لیے بریک نہ ملنا۔محکمہ میں ناپید ہوتا چھٹی کا تصور اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیئے پولیس کا بے دریغ استعمال ایسے عوامل ہیں جنہوں نے اس ادارے کی کارکردگی پر انتہائی مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم پولیس فورس کو ایک فعال قومی ادارہ بنانے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کریں اور دیگر سیکورٹی اداروں کی طرح محکمہ پولیس کو بھی ہر طرح کی سیاست اور سیاسی اجارہ داری سے پاک کر دیں۔مالی اور انتظامی سطح پر جب تک اسے مکمل خودمختاری نہیں دی جاتی،اس سے اچھی توقعات رکنا عبث ہے۔ہو نہیں سکتا کہ ضروری تبدیلیاں لائے بغیر پولیس کوئی مثالی کردار ادا کر سکے۔پولیس کے ادارے سے وابستہ شکایات کے ازالے کے لیئےانتہائی لازم ہے کہ پولیس میں نچلی سطح پر خاندانی اور پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں کی بھرتی کی جائے۔افسران بھی اپنے دفاتر میں نہ بیٹھیں بلکہ گاہے بگاہے تھانوں کے دورے کرتے رہیں،تاکہ تھانوں میں دادرسی کے حصول کو آسان بنایا جا سکے۔عمومی طور پر تھانوں سے یہ شکایات پیدا ہوتی ہیں کہ وہاں مظلوم اور غریب افراد کی داد رسی نہیں ہوتی۔اندراج مقدمہ کا حصول ان کے لیے انتہائی مشکل اور ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔جائز ایف آئی آر کے لیے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔رشوت نہ دی جائے تو تھانے کے چکر لگوائےجاتے ہیں۔ایف آئی آر درج ہونے کی صورت میں بھی اتنی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ پیسے کے بغیر کسی کے لیے بھی دادرسی کا اگلا مرحلہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں درخواست دہندہ یا مدعی کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیئے افسران کے دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں یا وکیل کی وساطت سے مقامی سیشن کورٹ میں 22/A، 22/B کے تحت رٹ پٹیشن دائر کرنی پڑتی ہے۔جہاں دو تین سماعتوں کے بعد درخواست دہندہ بالآخر اندراج مقدمہ کا حکم لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ لوگ اکثر جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج کراتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ جائز ایف آئی آر کا اندراج بھی نہیں ہوتاجس کے لیے درخواست دہندہ کو پتہ نہیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔قانون میں ہے کہ جو بھی جھوٹی ایف آئی آر دراج کرائے۔بعداز تفتیش غلط ثابت ہونے پر مدعی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 182 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔تاہم لوگ اس قانون سے ڈرتے اور 182 ت پ کو معمولی نوعیت کی دفعہ(سیکشن) سمجھ کر کارروائی نہیں کرتے۔ لوگوں میں 182 ت پ کا مطلق بھی خوف نہیں ضروری ہے کہ قانون کے اس سیکشن میں ترمیم کی جائے اور اس دفعہ کو اس قابل بنایا جائے کہ لوگ اس سے ڈریں اور خوفزدہ ہوں۔ جب تک 182 ت پ کا ڈر لوگوں پر نہیں بیٹھتا، جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج ہوتا رہے گا۔ ایسی ایف آئی آرز کے اندراج کے بعد لوگ جن مشکلات سے گزرتے ہیں اسکا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم نے پولیس کو یورپین پولیس کے مطابق کرنا ہے اور چاہتے ہیں کہ پولیس بھی ان جیسا طرز عمل اختیار کرے۔ قانون سے تجاوز ان کی سرشت میں شامل نہ ہو تو ہمیں پولیس کے ادارے میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔شعور کے بغیر ادارے کبھی زندہ نہیں رہ سکتے۔سوچ بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ پولیس کو وہ تربیت اور وسائل دیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایف آئی آر میں پولیس پولیس کے کہ پولیس پولیس کو کے لیئے کے لیے کی طرح
پڑھیں:
شریف خاندان کے اقتدار میں ملکی سالمیت خطرے میں پڑجاتی ہے ، پی ٹی آئی رہنما
شریف خاندان بھارت کے خلاف سخت ایکشن نہیں لے سکتا یہ کاروبار کرتے ہیں
نیشنل سیکورٹی کے معاملات میں عمران خان کا شامل ہونا ضروری ہے، میڈیا سے گفتگو
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومت پر سخت تنقید کی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑجاتی ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں سیاستدان موجود ہیں، ہمیں قومی ہم آہنگی چاہیے ، اپ کا قومی لیڈر جیل میں پڑا ہوا ہے ، ہماری قومی آہنگی آج نہیں رہی کیونکہ آپ نے ایک قومی لیڈر کو جیل میں ڈالا ہوا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپکے ملک کی اکانومی ختم ہو چکی ہے ، شریف خاندان بھارت کے خلاف سخت ایکشن نہیں لے سکتا یہ اُن کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، سخت ایکشن صرف ایک شخص لے سکتا ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی ہے ۔عمر ایوب خان نے کہا کہ شریف خاندان جب بھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے ، نواز شریف 1997 میں وزیراعظم اور میرے والد وزیرخارجہ تھے ، بھارت کا Mig 25 اسلام آباد کے اوپر اُڑا اور دو دو سانک دھماکے کیے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرے والد نے ایئرچیف کو کا فائٹر جیٹس دہلی کے اوپر سے اڑا سکتے ہیں تو انہوں نے وزیراعظم کی اجازت مانگی، نواز شریف کی اُس وقت کانپیں ٹانگ گئی تھیں، ایٹمی دھماکوں میں میرے والد سمیت پانچ لوگ تھے جنہوں نے کہا ایٹمی دھماکے ہوں گے ، وزیراعظم نواز شریف صبح کلنٹن سے بات کر رہے تھے کہ وہ ڈیل چاہتے ہیں۔عمر ایوب نے کہا کہ میرے والد نے کہا کہ نیوکلیئر ڈیوائسز سیل ہو چکی ہیں اب چاغی میں دھماکے ضرور ہونگے ۔عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمیشہ بتایا گیا کہ ہندوستان سے اپنی حفاظت کرنی ہے ، کل جو ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوئی وزیراعظم اگر سنجیدہ ہو تو وہ اپوزیشن لیڈرز کو فون کرے ، وزیراعظم اپیل کرے ، آپ اڈیالہ جیل جائیں اور عمرآن خان سے فوری ملاقات کریں۔ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروا کر ایک Consensus بنایا جائے ، اپوزیشن لیڈرز اس وقت ججوں کے سامنے بھٹک رہے ہوں اور جج صاحب کہتے ہیں 12 بجے آفس سے رپورٹ منگوا رہا ہوں۔بابر اعوان نے کہا کہ مقدمات کے آزاد ٹرائل کئے جائیں، تمام سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو ختم کیا جاہے ، میڈیا کو اذاد کیا جائے ، پاکستان میں فوری طور پر نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ سارے قوم میں 80-75 فیصد عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ، حکومت انکھ کھولیں فاشزم کو ختم کرے ، ترجیح بنیادوں پر پرانے مقدمات کو ختم کیا جائے ، ماڈل ٹاون ون اور ٹو کا مقدمہ ابھی تک زہر التوا ہیں۔بابر اعوان نے کہا کہ منتخب عدالتوں سے منتخب مقدمات پر فیصلے کروائے جارہے ہیں، جلد فراہمی انصاف میں انصاف ختم ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ریاست کے چاروں ستونوں کو برباد کر دیا گیا، ہمارا لیڈر عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے ، اب انکے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، وہاں پر عدالتوں احکامات پر ایک کرنل کے احکامات بھاری پڑ جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عوام، ملک اور قانون و آئین کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، یہ سب کسی کو بھی قبول نہیں ہے ، سندھ کی آج عوام، کسان ، وکلا سب سڑک پر ہیں، آج بھارت کو جرات ہوئی ہے کہ یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ ختم کر دیا، ہمارے اتاشی باہر نکال دیے ، اتنی جرات پہلے قابل نہیں تھے ۔لطفیف کھوسہ نے کہا کہ اسی حکومت میں یہ سب ہوا، بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے ، عوام صرف انکے ساتھ کھڑی ہے ۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ترمیم جس انداز ڈھٹائی سے کی گئی سب کے سامنے ہیں، اختر منگل پارلیمنٹ میں اپنے سینیٹر کو تلاش کر رہے تھے ، ہمارے ایم این ایز کو لالچ دی گئی، ہمارے ایم این ایز کو اٹھایا گیا۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ جھوٹ کا نظام ہے کفر کا نظام ہوتا ہے ، لوگوں پر گولیاں چلائیں گئیں،ہم نے پاکستان کا پانی دشمن سے چھیننا ہے ، نیشنل سیکورٹی کے تمام معاملات میں عمران خان کا شامل ہونا اہم ہے ، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں، ہم بہت جلد باہر نکلیں گے ہم معمالات کو افہام و تفہیم سے حل چاہتے ہیں۔ترجمان عمران خان نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ملک کی بقا کیلئے بانی پی ٹی کا وجود لازم ہے اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں، سندھ بلوچستان کے حالات سامنے ہیں ، اج سلامتی کونسل کا اجلاس بغیر خان کے ہو رہا ہے ،8 کو قوم نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ دیا، آپ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کرنا چاہتے ہیں نہیں کرسکتے ، دس مرتبہ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات سے روکا گیا۔پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ قوم کے سامنے لاقانونیت کی صورتحال رکھی ہے ، جواہش ہے کہ یہاں قبرستان کی خاموشی ہو، میرے ساتھ لطیف کھوسہ بابر اعوان نیاز اللہ نیازی علی بخاری موجود ہیں، 26 ترمیم کیساتھ جو رہا ہے وہ عوام کے سامنے رکھیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا آئین و قانون سے کوئی تعلق نہیں، اج قوم و ریاست کے بیچ کوئی رابطہ نہیں، مجھے جیل سے دومیل دور روکا جاتا ہے ، توہین عدالت کی درخواست کو لگنے میں مہینہ لگ جاتا ہے ۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ انقلاب قومیں لاتی ہیںاگر مقتدر حلقوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے بہت جلد فیصلہ کریں گے ، اج ہر جگہ لوگ پانی لوٹے جانے کے خوف سے خوفزدہ ہیں، ضرورت ہے کہ ملک لے لیڈر کو رہا کیا جائے ، عمران خان اور قوم کے بیچ آنے والے کو قوم معاف نہیں کرے گی، پاکستان کے عوام کی بات سنو۔